یورپی یونین، کینیڈا اور میکسیکو کا فولاد اور ایلومینم پر اضافی امریکی محصولات پر شدید ردعمل

(برسلز۔اُردونیٹ پوڈکاسٹ 16 رمضان 1439ھ) امریکہ نے یورپی یونین، کینیڈا اور میکسیکو سے فولاد اور ایلومینم پر اضافی امریکی محصولات پر عملدرآمد جمعہ یکم جُون سے شروع کرنے کا اعلان کیا ہے جس پر مذکورہ تینوں ملکوں نے برہمی کا اظہار اور جوابی اقدامات کرنے کا اعلان کیا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مارچ میں اعلان کیا تھا کہ فولاد اور ایلومینم کی درآمدات پربالترتیب 25 اور 10 فیصد اضافی محصولات عائد کیے جائیں گے لیکن اُنہوں نے امریکہ کے چند تجارتی شراکتداروں کو اس معاملے پر رعایت دینے کا اشارہ دیتے ہوئے بات چیت کا وقت دیا تھا، تاہم کوئی اتفاقِ رائے نہ ہوسکا۔

بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یورپی یونین اور کینیڈا جیسے اہم اتحادیوں کیساتھ محصولات سے متعلقہ تجارتی تنازع امریکہ کی ساکھ کیلئے نقصان دہ ہوگا اور یورپی ممالک وکینیڈا کی طرف سے جوابی محصولات عائد کی صورت میں معاملہ مزید گھمبیر ہوجائے گا جس سے امریکی معیشت متاثر ہوسکتی ہے۔

دریں اثناء، امریکی اعلان کے بعد یورپی یونین، کینیڈا ور میکسیکو نے امریکی محصولات کیخلاف فوری سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔ یورپی کمیشن کے صدر جین کلاؤڈ جنکر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ یورپی یونین کے خیال میں امریکہ کے یکطرفہ محصولات غیرمنصفانہ ہیں اور عالمی تجارتی تنظیم کے طے شُدہ ضوابط کے برخلاف ہیں۔ اُنہوں نے اضافی محصولات کو امریکہ کیجانب سے اپنی مصنوعات کی تحفظ پرستی قراردیا۔

یورپی یونین اس معاملے کو عالمی تجارتی تنظیم میں لے جانے کے ساتھ ساتھ امریکی مصنوعات پر جوابی محصولات عائد کرنے کیلئے ایک فہرست بھی تیار کررہی ہے۔

اُدھر پرتگال کے دارالحکومت لسبن میں جرمن چانسلر انجیلا میرکل اور پرتگال کے وزیراعظم انتونیو کوستا نے ایک مشترکہ اخباری کانفرنس میں کہا ہے کہ یورپ محصولات عائد کرنے کے امریکی فیصلے کا مقابلہ کرے گا۔ پرتگالی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ یورپ مشترکہ تجارتی پالیسی رکھتا ہے اور ہم تقسیم نہیں ہوں گے۔

چانسلر میرکل نے امریکی اقدام پر اپنے ردعمل میں کہا کہ اگر یہ محصولات عائد کیے گئے تو یورپی یونین کا ہمارا موقف واضح ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ ایسے محصولات عالمی تجارتی تنظیم کے ضوابط کیمطابق نہیں ہیں۔

دوسری جانب، کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈی نے صدرٹرمپ کیجانب سے فولاد کی مصنوعات پراضافی 25 فیصد اور ایلومینم مصنوعات پر 10 فیصد درآمدی محصولات عائد کیے جانے پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اِسے ’’کینیڈا-امریکہ تعلقات کا نقطہٴ موڑ‘‘ قرار دیا ہے۔ ٹروڈی نے کہا کہ ٹرمپ نے مذاکرات تعطل کا شکار ہونے کے بعد فرضی قومی سلامتی کی بنیادوں پر محصولات عائد کیے ہیں جو ’’قطعی ناقابلِ قبول‘‘ ہیں اور ’’ایک ایسے ملک کی توہین ہیں جس کے سپاہی امریکی فوجیوں کیساتھ ملکر لڑے اور اپنی جانیں دیں‘‘۔

کینیڈا نے جوابی اقدام کے طور پر درجنوں امریکی مصنوعات پر اضافی محصولات عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ کینیڈا کی وزارتِ خارجہ کیمطابق امریکی محصولات کے جواب میں اُس کی 16 ارب 60 کروڑ ڈالر مالیت کی اشیاء کوہدف بنایا گیا ہے جو کینیڈا کی 2017ء کی فولاد اور ایلومینم برآمدات کے حجم کے برابر ہے۔

اُدھر میکسیکو کے وزیرمعشیت اِلدیفونسوگُواجاردو نے کہا ہے کہ اُن کے ملک کیجانب سے جوابی محصولات کا ہدف امریکی گوشت، سیب، انگور، چیز اور امریکی صدر کو 2016 کے انتخاب میں حمایت فراہم کرنے والی ریاستوں سے فولاد کی مصنوعات ہوں گی۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ اس سے یہ پیغام واضح ہے کہ محصولات جیسے اقدامات کسی کیلئے سُودمند نہیں ہیں۔

خدشہ ہے کہ محصولات پر شروع ہونے والا یہ تنازع امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کے مابین عدم اعتماد کی خلیج کو وسیع کرسکتا ہے جس کے نتیجے میں نہ صرف تجارت بلکہ سلامتی اور دیگر بین الاقوامی معاملات میں بھی اختلافات کو ہوا مل سکتی ہے۔ یاد رہے کہ ایران کے جوہری سمجھوتے اور فلسطین کے معاملے پر امریکہ اور یورپی یونین کے اختلافات عیاں ہیں جو اب پہلے سے زیادہ بڑھتے جارہے ہیں۔