پاکستان کے عام انتخابات 2018، سمندر پار پاکستانی ایک مرتبہ پھر مکمل نظرانداز

 پاکستان کے عام انتخابات 2018، سمندر پار پاکستانی ایک مرتبہ پھر مکمل نظرانداز

تحریر: محمد زبیر (ٹوکیو)

13 جولائی 2018

E-Mail: asiavnn2000@gmail.com

سمندر پار پاکستانی بیرونِ ملک پاکستان کے حقیقی سفیر ہیں، حکومت سمندر پار پاکستانیوں کے مسائل کے حل کیلئے ہرممکن کوشش کررہی ہے، آپ اپنے وطن کی پہچان ہیں، پاکستان کو آپ پر فخر ہے، آپ ملکی معیشت کی شہ رگ ہیں، پاکستان میں امن آگیا ہے، ملکی معیشت تیزی سے ترقّی کررہی ہے، سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ ڈالنے کا حق بہت جلد دلواکر رہیں گے۔ یہ وہ مخصوص جملے ہیں جو جاپان سمیت بیرونِ ملک دورے پر آیا ہوا پاکستان کا ہر وزیراعظم، وزیرِ خارجہ، وفاقی وزیر یا اعلیٰ عہدیدار اپنے غیرملکی دوروں کے دوران وہاں مقیم پاکستانی برادری سے خطاب میں اس طرح پرجوش انداز میں بیان کرتا ہے جیسا کہ اُسے ملک سے باہر رہنے والے پاکستانیوں کے تمام دکھ درد اور مسائل سے مکمل آگاہی ہے۔ لیکن توجہ طلب بات یہ ہے کہ مذکورہ تمام باتوں نے کبھی حقیقت کا روپ نہیں دھارا۔ دور مشرّف کا ہو، پیپلز پارٹی کا یا پھر مُسلم لیگ ن کا، سمندر پار پاکستانیوں سے اس قسم کے وعدے تمام حکمرانوں نے کیے اور تحریکِ انصاف کے رہنماء عمران خان نے بھی چند سال قبل سمندر پارپاکستانیوں کو ووٹ کا حق دلوانے سمیت اُن کے مساٗئل حل کرنے کی باتیں کافی جوش وخروش سے کی تھیں۔

کتنی دلچسپ بات ہے کہ پاکستان کا دستور تمام پاکستانیوں کو ووٹ ڈالنے کا مساوی حق فراہم کرتا ہے لیکن سیاستدان اور حکمراں کہتے ہیں کہ یہ حق وہ سمندرپار پاکستانیوں کو دلوائیں گے۔ غیرممالک میں مقیم پاکستانیوں سے سیاستدانوں اور حکمرانوں کے وعدے اُتنے ہی جھوٹے ہیں جتنے اُن کے یہ وعدے کے ملک میں امن وامان کا مسئلہ ختم کردیا جائے گا، بجلی کا بحران چھ ماہ میں ختم کردیں گے، پاکستان کو ایشیاء کا ٹائیگر بنادیں گے، ملک میں بلٹ ٹرین ٹرینیں چلائیں گے، بدعنوانی کا خاتمہ کردیں گے۔ انہی نعروں میں آجکل یہ اضافہ سامنے آیا ہے کہ ملک میں پانی کا بحران حل کردیا جائے گا اور یہ مسئلہ اب اوّلین ترجیح ہے کیونکہ یہ ملک کی بقاء کا مسئلہ ہے، وغیرہ وغیرہ۔

اپنے ملک کے بیرونِ مقیم ملک شہریوں کو ووٹ ڈالنے کی سہولت دینا کوئی غیرمعمولی یا انہونی بات نہیں ہے۔ ابھی حال ہی میں ترکی، روس، فرانس اور دیگر کئی ممالک یہی سہولت اپنے بیرونِ ملک مقیم شہریوں کو فراہم کرچکے ہیں اور تسلسل کیساتھ یہ عمل کررہے ہیں۔ لیکن پاکستان کی تمام حکومتیں بیرونِ ملک مقیم اپنے شہریوں کو یہ سہولت فرام کرنے میں مسلسل ناکام رہیں حالانکہ ہمارے ملک پر دنیا کے عظیم ترین دوراندیش سیاستدان، ملک و قوم کی ترقّی کیلئے دن رات بیچین رہنے والے سابق وزیراعظم  اور مُسلم لیگ ن کے تاحیات قائد میاں نواز شریف جیسی تاریخ ساز شخصیت کے علاوہ پیپلز پارٹی جیسی عظیم اور جمہوری جماعت کئی بار حکومت کرچکی ہے جس کے قائد ذوالفقار علی بھٹّو اور اُنکی صاحبزادی محترمہ بینظر بھٹّو جیسی شخصیات تھیں۔ یہی نہیں بلکہ ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کے داعی (ر) جنرل پرویز مشرّف بھی سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ ڈالنے کی سہولت فراہم نہ کرسکے۔ نا صرف حکمراں جماعتیں اور حکومتیں بلکہ حزبِ اختلاف کی تمام جماعتیں بھی اس سلسلے میں کوئی باضابطہ اور واضح قانون سازی کروانے میں ناکام رہیں۔ سوال یہ ہے کہ اِس ناکامی کا ذمہ دار کون ہے؟ ہمارے اسلامی جمہوریہٴ پاکستان میں کسی کوتاہی کی ذمہ داری قبول کرنے کی کوئی روایت نہیں۔ ہر سیاستدان دوسرے سیاستدان پر، ہر حکومت پچھلی حکومت پر اور حزبِ اختلاف، حزبِ اقتدار کو موردِ الزام ٹھہرا کر خود کو ہر کوتاہی سے مستثنیٰ قرار دینے کے عادی ہیں۔

وزارتِ سمندر پار پاکستانی اور انسانی وسائی ترقیات کے گزشتہ سال کے اعدادوشمار کیمطابق 76 لاکھ پاکستانی بیرونِ ملک میں مقیم ہیں جن میں سے لگ بھگ 40 لاکھ مشرقِ وسطیٰ میں اور 15 لاکھ کے قریب برطانیہ میں رہائش پذیر ہیں۔ امریکہ، کینیڈا، اٹلی، فرانس، ملائیشیاء، جرمنی، اسپین، تھائی لینڈ، آسٹریلیا، ناروے، جنوبی کوریا اور جاپان سمیت دیگر ملکوں میں بھی پاکستانی بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔ لیکن ان میں سے جو پاکستانی ملک میں رواں سال 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں وہ ہمیشہ کی طرح اپنا ووٹ نہیں ڈال سکیں گے۔ ہاں اگر وہ ووٹ ڈالنے کے خواہاں ہیں تو وہ پاکستان پہنچ کر انتخابات والے دن اپنا ووٹ ڈال سکتے ہیں بشرطیکہ اُن کا نام رائے دہندگان کی فہرست میں موجود ہو۔

کیا حسنِ اتفاق ہے کہ ہمارے وطن کے بہت سے حکمراں اور سیاستدان بھی سمندر پار پاکستانی ہیں یا پھر رہ چکے ہیں اور ایسے بھی ہیں جو آئندہ یہ اعزاز حاصل کرلیں گے۔ اِن میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف، مُسلم لیگ ن کے موجودہ صدر شہباز شریف اور ان کا خاندان جو جدہ اور لندن میں سمندر پار پاکستانی بننے کا شرف حاصل کرچکے ہیں۔ سابق وزیر اعظم اور پیپلز پارٹی کی سابق سربراہ محترمہ بینظیر بھٹّو اور اُن کے صاحبزادے بلاول بھٹّو متحدہ عرب امارات اور برطانیہ میں سمندر پار پاکستانی کی حیثیت سے زندگی گزارچکے ہیں۔ اِس فہرست میں اب سابق صدر (ر) جنرل پرویز مشرّف اور سابق وزیرِ اعظم شوکت عزیز بھی شامل ہیں جو مستقل بیرونِ ملک مقیم ہیں۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنماء عمران خان سمندر پار پاکستانی کے طور پر برطانیہ میں زندگی گزارنے کا تجربہ رکھتے ہیں اور اُن کے بچّے برطانیہ ہی میں مقیم ہیں۔ میاں نواز شریف کے دو بیٹے اطلاعات کیمطابق برطانوی شہریت لے چکے ہیں۔

یہ حقیقت واضح ہے کہ پاکستان کی کسی بھی حکومت نے کبھی سمندر پار مقیم پاکستانیوں کے بارے میں نہ تو کوئی جامع پالیسی بنائی اور نہ ہی یہ سوچنے کی زحمت گوارہ کی کہ بیرونِ ملک مقیم لاکھوں پاکستانیوں کے مسائل کیا ہیں؟ جب مسائل ہی نہیں معلوم تو اُن کے حل کیلئے سوچ بھلا کہاں سے پیدا ہوسکتی ہے؟ ہر پاکستانی حکومت، وزیراعظم اور اعلیٰ عہدیدار یہ بات جانتا ہے کہ سمندرپار پاکستانی ہر سال 10 ارب ڈالر سے زائد ترسیلات غیرمشروط طور پرملک بھیجتے رہے ہیں۔ مالی سال 12-2011 کے دوران بیرونِ مقیم پاکستانیوں نے 13 ارب ڈالر سے زائد رقم وطن بھیجی جبکہ اے پی پی کی رپورٹ کیمطابق صرف رواں سال سمندر پار پاکستانیوں کیجانب سے بھیجی گئی رقم کا تخمینہ 20 ارب ڈالر ہے۔ اِس رقم کیلئے حکومتِ پاکستان کو نہ تو کسی امریکی صدر کے آگے جھکنا پڑتا ہے اور نہ ہی آئی ایم ایف یا عالمی بینک کے آگے کشکول پھیلانا پڑتا ہے۔ ’’کشکول توڑدینگے‘‘ کا نعرہ لگانے والوں نے اب تو کشکول کا ذکر ہی کرنا چھوڑدیا ہے شاید اسلیے کہ یہ جھانسہ مسلسل نہیں دیا جاسکتا یا پھر اسلیے کہ کشکول اتنا بڑا ہوچکا ہے کہ اُس کے توڑنے کی بات پر زوردیا گیا تو بیرونِ ملک ذاتی سرمائے کی مزید تفصیلات سامنے آجانے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ سمندر پار پاکستانیوں کیجانب سے بھیجی جانے والی سالانہ رقم کا حجم ہی وہ عنصر ہے جس کی وجہ سے بیرونِ ملک پاکستانی برادری سے رسمی خطاب کرنے والا پاکستان کا ہر وزیراعظم، وفاقی وزیر یا اعلیٰ عہدیدار یہ گھسا پِٹا بے معنی جُملہ ضرور بولتا ہے کہ سمندر پار پاکستانی ملک کے اصل سفیر ہیں۔ جناب یہ وہ سفیر ہیں جو نہ تو حکومتِ پاکستان سے کوئی تنخواہ لیتے ہیں، نہ کوئی وظیفہ اور نہ ہی کسی قسم کا ٹی اے ڈی اے۔ لیکن کم ازکم حکومتِ پاکستان اور سیاسی جماعتوں میں ان کے مسائل کو حقیقی طور پر سمجھنے کی کوشش کرنے والا کوئی نہیں ہے۔

دوسری جانب، یہ سوال ضرور اُٹھایا جانا چاہیئے کہ حکومت سے تنخواہ سمیت رہائش، بچّوں کی تعلیم کے اخراجات اور دیگر مراعات لینے والے پاکستان کے سفارتکار اور سفارتی عملہ کیا خدمات انجام دے رہے ہیں۔ میاں نواز شریف کی گزشتہ حکومت میں تو چارسال تک ملک کا کوئی وزیرِ خارجہ ہی نہیں تھا۔ اب حالت یہ ہے کہ بیرونِ ملک پاکستان سے متعلق منفی خبروں کی بھرمار ہے، کئی اسلامی ممالک تک سے ہمارے تعلقات خراب ہیں جبکہ اسلامی تعاون تنظیم، او آئی سی سمیت بیشتر عالمی فورمز پر ہمیں تنہائی کا سامنا ہے اور یہ تنہائی بڑھتی جارہی ہے۔ 1960 ، 70 اور 80 کی دہائی سے موازنہ کیا جائے تو آج ہماری سفارتکاری غیر فعال اور بے اثر نظرآتی ہے تاہم اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی سفیر کافی فعال نظر آتی ہیں لیکن وزیرِ خارجہ کی عدم موجودگی اور بے یقینی کا شکار خارجہ پالیسی نے پاکستان کو مشکلات کے سمندر میں دھکیل رکھا ہے۔

اس سلسلے میں جاپان کی مثال لے لیجیے جہاں ایک طرف تو ہمارے سفراء یہ باور کرواتے رہتے ہیں کہ پاکستان میں امن وامان کی صورتحال بہت بہتر ہوگئی ہے اور ملک میں سرمایہ کاری کا ماحول انتہائی سازگار ہے۔ لیکن جاپان کی وزارتِ خارجہ کیجانب سے اپنے شہریوں کیلئے پاکستان کے سفر سے متعلق جاری کی گئی ہدایت کے نقشے میں پاکستان کے کسی بھی علاقے کو سفر کیلئے محفوظ ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔ مزید برآں، افغانستان اور ایران کی سرحد کے نزدیک واقع پاکستان کے تمام علاقوں کو سطح چار یعنی انتہائی خطرناک یا غیرمحفوظ ظاہر کیا گیا ہے۔ پاکستان کے بیشتر علاقوں کو اس وقت سطح 2 میں رکھا گیا ہے جو جاپانی شہریوں کو سفر کیلئے محتاط رہنے کا عندیہ ہے لیکن گزشتہ کئی سالوں کے مقابلے میں اب سطح 2 کے دائرے میں آنے والے علاقوں کی تعداد زیادہ ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد، سب سے بڑے شہر کراچی اور دوسرے بڑے شہر لاہور سمیت پاکستان کا کوئی بھی شہر یا علاقہ جاپان کی وزارتِ خارجہ کے نقشے کی سطح ایک میں شامل نہیں۔ دوسری جانب، بھارت کا بیشتر علاقہ جاپان کی وزارتِ خارجہ کے نقشے کی سطح ایک میں شامل ہے جس میں تمام بڑے شہر بھی شامل ہیں۔ مذکورہ اہم نکات کو مدِ نظر رکھا جائے تو یہ بات عیاں ہے کہ جاپانی سیاح یا سرمایہ کار پاکستان جانے میں انتہائی احتیاط سے کام لے گا۔ جاپان میں سفیرِ پاکستان ڈاکٹر اسد مجید خان کیمطابق پاکستان جانے کیلئے ویزا حاصل کرنے کی درخواست دینے والے جاپانیوں کی تعداد میں اب اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ دوسری جانب، جاپان کی وزارتِ خارجہ کی طرف سے پاکستان کی سلامتی صورتحال کے حوالے سے اپنے شہریوں کو جو ہدایت نقشے کی صورت میں جاری کی گئی ہے اُسے دیکھکر نہ تو جاپان کے سیاحتی ادارے اور نہ ہی کاروباری ادارے پاکستان کے حوالے سے کوئی خاص گرمجوشی دکھاسکتے ہیں۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ پاکستان میں سلامتی کی صورتحال کو مزید بہتر بنایا جائے۔ محض تقاریر میں یہ کہنا کافی نہیں کہ پاکستان میں امن وامان کی صورتحال بہت بہتر ہوگئی ہے بلکہ اسلام آباد کیجانب سے حکومتِ جاپان کو بھی اچھّی طرح قائل کرنا ہوگا کہ ہمارے ملک میں سلامتی کی صورتحال نمایاں طور پر بہتر ہوگئی ہے۔ لیکن اس دلیل کیلئے ضروری ہے کہ حکومتِ پاکستان کے الفاظ اور زمینی صورتحال ایک دوسرے سے مطابقت رکھتے ہوں۔ جاپان کی وزارتِ خارجہ کے سلامتی سے متعلق ہدایت کے نقشے کو دیکھیں تو پاکستان اور بھارت میں نمایاں فرق نظرآتا ہے جسے دیکھکر جاپانی سیاح اور کاروباری ادارے یقینی طور پر بھارت کیجانب مائل ہوں گے۔ لہٰذا ہمیں حقیقت پسندی کیساتھ سخت محنت کرنے کی ضرورت ہے تاکہ قدرتی وسائل، کاروباری مواقعوں، سیاحتی مقامات اور نوجوان آبادی سے مالا مال پاکستان، جاپان سمیت دنیا بھر کی توجہ حاصل کرسکے۔ اس کیلئے سلامتی کی صورتحال میں نمایاں بہتری اور سیاسی استحکام دونوں ناگزیر ہیں۔

غیرممالک میں مقیم پاکستانی صرف ملک کیلئے زرِ مبادلہ کا ذریعہ ہی نہیں ہیں بلکہ اگر جامع منصوبہ بندی کی جائے تو یہی سمندر پار پاکستانی ملک کی سیاحتی صنعت میں ایسی روح پھونک سکتے ہیں کہ جس کی مثال پاکستان کی پوری تاریخ میں نہیں مل سکتی۔ اِس خیال کو عملی جامع پہنانے کیلئے سرکاری اور غیر سرکاری دونوں سطح پر غیر معمولی اور حقیقت پسندانہ منصوبہ بندی کی ضروت ہے۔ (جاری ہے)