پاکستان کے عام انتخابات، اہم سیاستدانوں کا پالیسیوں کے بجائے اشتعال انگیز دھمکیوں اور کردار کشی پر زور

(لاہور-اُردونیٹ پوڈکاسٹ 07 ذوالقعدہ  1439ھ)  پاکستان میں جُوں جُوں عام انتخابات کی تاریخ 25 جولائی قریب آرہی ہے، سیاسی درجہٴ حرارت میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے جبکہ تین بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہان عوام کو اپنی پالیسیاں بتانے کے بجائے اشتعال انگیز دھمکیوں اور ایک دوسرے کی کردار کشی پر زیادہ زور دے رہے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے لاہور میں نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے132 میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مُسلم لیگ ن کے موجودہ سربراہ اور طویل عرصے صوبہ پنجاب کے وزیرِاعلیٰ رہنے والے شہباز شریف پر سخت تنقید  کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہباز شریف نے اپنے دور میں صوبے میں پولیس سےغلط کام کروائے اور نواز شریف کے بعد اب اڈیالہ جیل شہباز شریف کا انتظار کر رہی ہے۔

اُنہوں نے ملک میں مراعات یافتہ حکمراں طبقے کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ  پاکستان میں امیر اور غریب کیلئے الگ قانون ہے، کمزور اور مظلوم طبقے کو اوپر اُٹھائیں گے۔ عمران خان خان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا فیصلہ 25 جولائی کو ہوگا، ہم 25 جولائی کے بعد نیا پاکستان دیکھیں گے، پاکستان میں پیسے والوں کے لیے تمام سہولتیں موجود ہیں، 25 جولائی کے بعد نچلے طبقے کو اُوپر لائیں گے، پاکستان کو عظیم تر ملک بنائیں گے، اقتدار میں آ کر غربت کا خاتمہ اور تعلیم کا نظام بہتر کریں گے، اقتدار میں آ کر پولیس کا نظام ٹھیک کرکے دکھاؤں گا۔

تحریکِ انصاف کے سربراہ نے پنجاب کے سابق وزیرِاعلیٰ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے سوال کیا کہ ہر سال لاہور میں ساڑھے 3 ارب ڈالر کہاں خرچ ہوتا ہے؟

دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ (ن) کے موجودہ صدر شہباز شریف نے پنڈی گھیپ میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اپنے بڑے بھائی اور سابق وزیراعظم نواز شریف کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک سے دہشتگردی، لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کرنے اور ملک کو ایٹمی قوت بنانے والا ہمارا رہنماء اڈیالہ جیل میں قید ہے۔اُنہوں نے کہا کہ 2013ء میں بجلی جاتی تو تھی لیکن آتی نہیں تھی لیکن ہم نے اپنے دورِ اقتدار کے پانچ سالوں میں گیارہ ہزار میگاواٹ بجلی سسٹم میں شامل کی۔

شہباز شریف نے پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ اور اپنی جماعت کے سب سے بڑے سیاسی حریف عمران خان کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اُنہیں ’’جھوٹا‘‘ قراردیا۔ سابق وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ عمران خان کیخلاف کیا ثبوت چاہیے؟ وہ سب سے بڑا جھوٹا ہے، جس طرح اس کا دماغ خالی، اسی طرح جلسہ خالی ہوتا ہے۔ اپنے صوبے خیبر پختونخوا کو تباہ وبرباد کرنے کے بعد اب وہ پنجاب میں آ کر نعرے لگا رہے ہیں۔

ن لیگ کے صدر نے کہا کہ نواز شریف نے کسانوں کو سستی کھاد اوربجلی دی، ہماری حکومت میں ڈالر 100 روپے کا تھا جس کی قیمت آج بڑھ کر 130 روپے ہو گئی ہے، عوام بتائیں کہ کیا نواز شریف نے جرم کیا یا پاکستان کی خدمت کی؟ لیکن شہباز شریف نے یہ نہیں بتایا کہ مشرّف دور میں ایک ڈالر 60 روپے کا ہُوا کرتا تھا اور نہ ہی یہ وضاحت کی کہ ن لیگ کا سابق وزیرخزانہ اسحٰق ڈار جس پر ملک میں کئی مقدمات قائم ہیں وہ بیماری کا بہانہ بناکر ملک سے باہر کیوں چلا گیا؟

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری جو اپنی انتخابی مہم کے اہم مرحلے میں لاہور پہنچ چکے ہیں اُنہوں نے صوبہ پنجاب کے اس سب سے بڑے شہر میں قافلے کی صورت میں پہنچنے کے بعد کئی مقامات پر خطاب کیا۔ بلاول بھٹّو زرداری کا کہنا تھا کہ اُن کا مقابلہ دائیں بازو کی اُن جماعتوں سے ہے جنہوں نے پنجاب کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔

اُنہوں نے زورد یا کہ پیپلز پارٹی ہمیشہ عوام دوست منشور لے کر آئی، اقتدار میں آ کر کسانوں کو بے نظیر کسان کارڈ جاری کریں گے، خواتین کو بلا سود قرضے دیں گے، فوڈ کارڈ کے ذریعے اشیا سستی قیمتوں پر دستیاب ہوں گی۔

 بلاول بھٹّو نے مُسلم لیگ ن اور تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ قبل ازیں پنجاب ہی کے شہر چنیوٹ میں اُنہوں نے کہا تھا کہ عمران خان کے وزیرِاعظم بننے کا امکان 0.2 فیصد ہے تاہم اُنہوں نے یہ نہیں بتایا کہ باقی رہنماؤں کے وزیرِاعظم بننے کے امکانات کتنے فیصد ہیں اور نہ ہی یہ وضاحت کی کہ یہ مذکورہ فیصد کس تحقیق یا جائزے کے بعد اور کس بنیاد پر ہے۔

پاکستان میں حالیہ انتخابی مہم کے دوران دیکھا گیا ہے کہ ملک کی تینوں بڑی جماعتوں کے سربراہان اور اُن کے دیگر اُمیدوار اپنے خطابات کے دوران دھمکی آمیز اور اشتعال انگیز بیان بازی پر غیرمعمولی توجہ دے رہے ہیں جس سے نفرت آمیز رویے کی عکّاسی ہوتی ہے۔ اس کے نتیجے میں ملک میں عوامی یکجہتی اور رواداری کے بجائے ایک دوسرے کی مخالفت اور کردار کشی گروپوں میں تقسیم کا رجحان غالب آگیا ہے۔