پاکستان سپر لیگ کا فائنل آج کراچی میں، 10 سال بعد بین الاقوامی کرکٹ شہر قائد لوٹ آئی

(کراچی۔اُردونیٹ پوڈکاسٹ 8 رجب 1439ھ)  پاکستان سُپر لیگ، پی ایس ایل کا فائنل آج اسلام آباد یونائیٹڈ اور پشاورزلمی کی ٹیموں کے مابین پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں کھیلا جارہا ہے جس کیلئے نہ صرف کراچی بلکہ پاکستان اور دنیا بھر میں کرکٹ کے شائقین منتظر ہیں۔

بین الاقوامی کرکٹ لگ بھگ 10 سال کے عرصے کے بعد شہرِ قائد لوٹ آئی ہے اور اِس بحالی پر کراچی میں گزشتہ روز سے غیرمعمولی جوش وخروش نظر آرہا ہے۔ یاد رہے کہ 3 مارچ 2009ء کو پاکستان کے دوسرے سب سے بڑے شہر لاہور میں سری لنکا کی ٹیم کی بس پر دہشتگردانہ حملے کے بعد بین الاقوامی ٹیموں اور کھلاڑیوں نے پاکستان آنے انکار کردیا تھا۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کیمطابق پاکستان سُپر لیگ کے فائنل کیلئے انتظامات کو حتمی شکل دیدی گئی ہے جبکہ سلامتی کے انتہائی سخت اقدامات کیے گئے ہیں۔ کراچی میں کرکٹ کے شائقین اور تجزیہ کار بین الاقوامی کرکٹ کی شہرِ قائد میں بحالی کو صوبائی حکومت، پاکستان کرکٹ بورڈ اور سلامتی کے اداروں کیلئے امتحان قراردے رہے ہیں۔

گزشتہ تقریبا 10 سال پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں ہونے والے بین الاقوامی کرکٹ میچوں کو متحدہ عرب امارات منتقل کردیا گیا تھا جس نے تجزیہ کاروں کیمطابق پاکستان میں نوجوانوں میں کرکٹ کے جوش وخروش کو نقصان پہنچایا جبکہ بین الاقوامی طور پر بھی یہ تاثر قوی ہوا کہ پاکستان میں کھیلوں کے بین الاقوامی مقابلوں کا انعقاد نا ممکن ہے۔ اِس تاثر نے بین الاقوامی طور پر پاکستان کی شبیہ پر شدید منفی اثرات مرتب کیے۔

کراچی میں پاکستان سُپرلیگ کے فائنل کیلئے دفاعی چمپیئن پشاور زلمی کے کپتان ڈیرن سیمی اور اسلام آباد یونائیٹڈ کے کپتان مصباح الحق کافی پرجوش نظر آتے ہیں۔ امکان ہے کہ آج نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں ہونے والا پاکستان سُپرلیگ کرکٹ کا فائنل انتہائی دلچسپ ثابت ہوگا۔

دوسری جانب پاکستان کرکٹ بورڈ کیلئے بھی یہ فائنل اِس لحاظ سے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اُ سپر الزام لگتا رہا ہے کہ اُس نے پاکستان کی کرکٹ کو لاہور اور پھر متحدہ عرب امارات تک محدود کردیا ہے۔ مبصّرین کا کہنا ہے کہ لاہور اور کراچی کے علاوہ کوئٹہ، حیدرآباد اور پشاور میں بھی بین الاقوامی کرکٹ کی جلد از بحالی کو یقینی بنایا جانا چاہیئے تاکہ وہاں بھی عوام اپنے کرکٹ کے ہیروز کو اپنے درمیان دیکھ سکیں اور نوجوانوں میں کرکٹ کو فروغ حاصل ہو۔