فلسطینی بچّوں کی میسی سے درخواست، ہمارے مقبوضہ گاؤں میں اسرائیل کیساتھ میچ نہ کھیلیں

(غزہ۔اُردونیٹ پوڈکاسٹ 20 رمضان 1439ھ) روس میں 15 جُون سے شروع ہونے والے عالمی فٹبال کپ سے قبل اسرائیل اور ارجنٹائن کے مابین 9 جون کو مقبوضہ فلسطینی گاؤں میں تعمیرکردہ ایک اسٹیڈیم میں دوستانہ میچ کا منصوبہ فلسطینی بچّوں کی التجا کی وجہ سے اس وقت عالمی توجہ اپنی جانب مبذول کروارہا ہے۔ فلسطینی بچّوں نے اپنے پسندیدہ ترین کھلاڑی ارجنٹائن کے لیونل میسی کو ایک خط لکھا ہے جس میں اُن سے درخواست کی گئی ہے کہ مقبوضہ القدس کے جنوب میں واقع اُس گاؤں میں اسرائیل کیساتھ میچ کھیلنے سے انکار کردیں جو اسرائیل اور عرب کے مابین جنگ میں 70 سال قبل تباہ ہوگیا تھا اور جس پر اسرائیل کا ناجائز قبضہ ہے۔

1948ء میں برطانیہ کیجانب سے ریاست اسرائیل تخلیق کیے جانے کے موقع پر اس گاؤں سے فلسطینیوں کو طاقت کے بل پر بیدخل کرکے یہاں یورپ سے لائے گئے یہودیوں کو آباد کردیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ یہودی مقبوضہ القدس کو یروشلم کہتے ہیں۔

فلسطینی بچوں کیجانب سے میسی کے نام لکھے گئے پیغام میں کہا گیا ہے کہ ’’ہمیں بتایا گیا ہے کہ آپ ہمارے تباہ شُدہ گاؤں پر تعمیر کردہ اسٹیڈیم میں اپنے دوستوں کیساتھ میچ کھیلنا چاہتے ہیں۔ ہماری خوشی آنسوؤں میں بدل گئی اور ہمارے دل ٹوٹ ٹوٹ گئے ہیں کہ ہمارا ہیرو، میسی ہمارے آباواجداد کی قبروں پر تعمیر ہونے والے اسٹیڈیم میں کھیلنے جارہے ہیں؟‘‘۔

فلسطینی بچوں نے خط میں یہ بھی لکھا ہے کہ ’’ہم خدا سے دعا کریں گے کہ میسی ہمارے دل نہ توڑیں‘‘۔

دوسری جانب فلسطین فٹبال ایسوسی ایشن نے ارجنٹائن کی فٹبال ایسوسی ایشن، جنوبی امریکہ فٹبال فیڈریشن اور فٹبال کی عالمی تنظیم فیفا کو ایک احتجاجی خط تحریر کیا ہے جس میں نشاندہی کی گئی ہے کہ ’’اسرائیلی حکومت القدس (یروشلم) میں یہ میچ منعقد کرواکر اسے سیاسی معنی دینے کی کوشش کررہی ہے‘‘۔

ایک طرف تو 30 مارچ سے اب تک غزہ میں اسرائیل کی مبینہ سرحد کے نزدیک اسرائیلی فوج کی وحشیانہ فائرنگ سے 122 سے زیادہ فلسطینی جاں بحق اور 13000 کے قریب فلسطینی زخمی ہوچکے ہیں لیکن مقبوضہ علاقے میں ارجنٹائن کیساتھ دوستانہ میچ منعقد کرکے اسرائیلی حکومت دنیا کو یہ ظاہر کرنا چاہتی ہے کہ مقبوضہ علاقہ اُس کی سرزمین ہے حالانکہ اُس کے اس دعوے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں کیونکہ اقوامِ متحدہ بھی القدس پر اسرائیلی قبضے کو تسلیم نہیں کرتی۔

دوسری جانب، بعض تجزیہ کار اور فلسطینی اس بات پر بھی حیرت کا اظہار کررہے ہیں کہ اسرائیل کس طرح ارجنٹائن کیساتھ اس متوقع میچ کی فیفا اور ارجنٹائن فٹبال ایسوسی ایشن سے منظوری حاصل کرنے میں کامیاب ہوا جبکہ القدس جسے یہودی یروشلم کہتے ہیں اُس کی مقبوضہ اور متنازع حیثیت کو عالمی فٹبال کا منتظم ادارہ فیفا جانتا ہے یعنی اُس نے جانتے بوجھتے ہوئے ایک مقبوضہ جگہ پر میچ کی اجازت دی ہے۔ غزہ سے ایک فلسطینی ابو قاسم نے سوال کیا کہ اسرائیل کہتا ہے کہ وہ حالتِ جنگ میں ہے لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ فیفا اور ارجنٹائن نے ایک جنگ زدہ مقام اور ایسی ریاست میں فٹبال کے میچ کی منظوری کیسے دیدی جو حالتِ جنگ میں ہے؟ مذکورہ فلسطینی نے کہا کہ ’’یہ فٹبال کا میچ یا کھیل نہیں بلکہ فلسطینیوں کے زخم پر نمک چھڑکنا اور اسرائیل کیجانب سے فلسطینیوں کے قتل عام، گرفتاریوں، ظلم اور فلسطینی سرزمین پر ناجائز قبضے کو چھپانے کی مہم ہے‘‘۔

بعض فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ اقوامِ متحدہ سے لے کر کھیلوں کے عالمی اداروں تک اسرائیل اپنے اثرورسوخ اور دھمکیوں سے اپنی بات منوالے میں کامیاب رہتا ہے جو کہ عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم سمیت اسلامی ملکوں کی سفارتکاری کی اہلیت پر سوالیہ نشان ہے۔