عفرین شہر کے مرکز میں امن اور سلامتی کے پرچم لہرارہے ہیں، یومِ شہداء پر اردوغان کا خطاب

(استنبول۔اُردونیٹ پوڈکاسٹ 2 رجب 1439ھ)  دوبراعظموں کے بیچ واقع ترکی کے صوبہ چناق قلعہ کے اِسی نام کے شہر چناق قلعہ میں 18 مارچ 1915ء کو پہلی جنگِ عظیم کے دوران حاصل کی گئی تاریخی فتح کی 103 ویں برسی کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے صدر رجب طیب اردوغان نے کہا ہے کہ ’’اب شام کے شہر عفرین میں امن اور سلامتی کے پرچم لہرارہے ہیں‘‘۔ یاد رہے کہ 18 مارچ کو ’’چناق قلعہ‘‘ کی تاریخی فتح کی یاد میں اِس دن کو ترکی میں یومِ شہداء کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ صوبہ ایشیاء اور یورپ کے سنگم پر واقع ترکی کا اہم شہر ہے۔

صدر اردوغان نے کہا کہ آج ترک قوم وطن اور وطن سے باہر اُسی عزم اور ولولے کیساتھ جدوجہد کررہی ہے جیسا کہ اُس نے چناق قلعہ کی فتح کے دوران کی تھی۔ اُنہوں نے کہا کہ شام میں’’شاخِ زیتون کارروائی‘‘ کے ساتھ ترکی نے پوری دنیا کو دکھایا ہے کہ وہ مظلوم کیساتھ کھڑا ہوتا ہے۔ جناب اردوغان نے زور دے کر کہا کہ عفرین کو اُس کے بنیادی ڈھانچے اور بڑے ڈھانچے کی تعمیر کے ذریعے رہنے کیلئے موزوں مقام میں تبدیل کردیا جائے گا۔ اُنہوں نے کہا کہ’’ہم علاقے کے اُن مقامی لوگوں کو واپس گھر آنے کے قابل بنانے کیلئے ہر ضروری قدم اُٹھائیں گے جو اِس وقت ترکی اور دیگر ملکوں میں رہ رہے ہیں‘‘۔

اس وقت ترکی کو دہشتگردی کی جو لہر ہدف بنارہی ہے اُس کیجانب أشارہ کرتے ہوئے صدر اردوغان نے کہا کہ دراصل چینک قلعہ پر اُس دور کی طاقتور ترین افواج کیساتھ جو حملے کیے گئے تھے یہ ایک صدی بعد اُنہیں بحال کرنے کی کوشش ہے۔ اُنہوں نے ملکوں کا نام لیے بغیر کہا کہ آج وہ دنیا کی سب سے زیادہ نفرت انگیز، ظالم اور خونی دہشتگرد تنظیموں کے ساتھ ہم پر حملہ کررہے ہیں جنہیں اُنہوں نے خصوصی ہتھیاروں سے مسلح کیا اور تربیت دی کیونکہ اب اُن میں وہ حوصلہ نہیں ہے۔ ترک صدر نے کہا کہ پی کے کے سے فیتو، داعش سے پی وائی ڈی، اب ان تمام تنظیموں کو ایک مقصد کے تحت کام پر رکھا جارہا ہے۔

یاد رہے کہ ترکی سمیت مشرقِ وسطیٰ میں بھی کئی تجزیہ کاروں نے نشاندہی کی ہے کہ امریکہ اور اُس کے بعض اتحادی پی وائی ڈی اور داعش جیسی دہشتگرد تنطیموں کی پشت پناہی کررہے ہیں۔ شام اور عراق میں ایسی دہشتگرد تنظیموں کے پاس جدید ترین ہتھیار، گاڑیاں اور مواصلاتی نظام دیکھنے میں آئے ہیں جبکہ انہیں انٹرنیٹ پر بھی رسائی حاصل رہی ہے۔

دوسری جانب، اس وقت لگ بھگ 30 لاکھ شامی پناہ گزینوں نے ترکی اور ڈیڑھ لاکھ سے زائد نے اُردن اور عراق میں پناہ لے رکھی ہے۔ صدر رجب طیب اردوغان نے شام کا بحران شروع ہونے کے بعد پناہ گزینوں کا سلسلہ شروع ہونے پر تجویز دی تھی کہ شام کے اندر محفوظ علاقے تشکیل دے کر شامی مہاجرین کووہاں بسایا جائے اور تمام فریق ان علاقوں پر کوئی فوجی کارروائی نہ کریں۔ لیکن اس تجویز پر امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے کوئی توجہ نہ دی۔ ترک صدر چاہتے ہیں کہ شامی باشندے دوسرے ملکوں میں جانے کے بجائے اپنے ہی ملک میں محفوظ علاقوں میں رہیں تاکہ اُن کی مشکلات کم سے کم ہوسکیں۔