عدالت کیجانب سے سزا کے بعد نواز شریف نے وطن واپسی اہلیہ کے ہوش میں آنے سے مشروط کردی

(اسلام آباد-اُردونیٹ پوڈکاسٹ 23 شوال 1439ھ) پاکستان کے سابق وزیرِاعظم نواز شریف نے احتساب عدالت کی طرف سے اُنہیں 10 سال قید بامشقّت اور 80 لاکھ پاؤنڈ جُرمانے (ایک ارب 10 کروڑ روپے سے زائد) کی سزا سُنائےجانے کے بعد لندن میں ایک مبینہ اخباری کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ وطن واپس جائیں گے لیکن سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے تاحیات قائد نے اپنی واپسی کو اہلیہ کے ہوش میں آنے سے مشروط کردیا ہے جو اس وقت ہسپتال میں وینٹیلیٹر پر ہیں اور یہ واضح نہیں ہیں کہ وہ کب ہوش میں آسکیں گی۔

ایک غیرملکی صحافی کی طرف سے پوچھے گئے اس سوال پر کہ آیا وہ برطانیہ میں سیاسی پناہ حاصل کریں گے، نواز شریف نے کہا کہ وہ سیاسی پناہ حاصل کرنے کی کوشش نہیں کررہے۔ اس اخباری کانفرنس میں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز بھی موجود تھیں جنہیں احتساب عدالت نے 7 سال قید اور 20 لاکھ پاؤنڈ  (30 کروڑ روپے سے زائد) جرمانے کی سزا سُنائی ہے۔ تاہم محترمہ مریم نے اخباری کانفرنس میں کوئی بات چیت نہیں کی اور نہ ہی ردعمل ظاہر کیا تاہم وہ گزشتہ روز اپنے ٹوئیٹر پر مختصر بیانات جاری کرتی رہیں۔

مذکورہ اخباری کانفرنس میں اطلاعات کیمطابق مخصوص ذرائع ابلاغ اور نمائندوں کو شرکت کی اجازت دی گئی تھی۔ اس اخباری کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے نواز شریف کا کہنا تھا کہ ’’میرے خلاف ہر وہ ہتھکنڈا استعمال کیا گیا جس کی مثال نہیں ملتی، میں نے اپنے اور بیٹی کیلئے نہیں سوچا، میں نے صرف 109 پیشیاں ہی نہیں بھگتیں بلکہ غداری کے فتوے بھی سنے اور مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں اور کارکنان پر بدترین جبر بھی برداشت کیے‘‘۔

سابق وزیراعظم نے مزید کہا کہ ’’جس جدو جہد کا میں نے آغاز کیا ہے کہ اس میں اسی طرح کے فیصلے اور سزائیں دی جاتی ہیں، کوئی پھانسی چڑھتا ہے، کوئی جلاوطن ہوتا ہے، کسی کو ہتھکڑیاں لگتی ہیں، کوئی قلعوں میں قید ہوتا ہے، کسی کو ہائی جیکر قرار دیا جاتا ہے، کسی کو وزارت عظمیٰ سے نکال باہر کیا جاتا ہے، کوئی تاحیات نااہل قرار پاتا ہے، کسی کو غدار بنایا جاتا ہے، سیاسی اور مذہبی جماعتوں سے دھرنے کروا کر سیاسی دباؤ ڈالا جاتا ہے، ذرائع ابلاغ کو جبراً خاموش کرایا جاتا ہے، کیبل آپریٹرز کو دھمکا کر چینلز بند کرائے جاتے ہیں، اخبارات کو عوام تک پہنچنے سے زبردستی روکا جاتا ہے، صحافیوں کو ظلم کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور انہیں مارا پیٹا جاتا ہے، ان کے اداروں کو مالی نقصان پہنچایا جاتا ہے، سیاسی جماعتوں کی توڑ پھوڑ کی جاتی ہے، ساتھیوں کی وفاداریاں تبدیل کرائی جاتی ہیں اور دھونس و دھاندلی سے انتخابی امیدوار نااہل کرائے جاتے ہیں‘‘۔

سابق وزیراعظم نے ڈھکے اور اپنے مخصوص غیر واضح انداز میں فوج اور جرنیلوں پر سخت تنقید کی لیکن کسی کا نام نہیں لیا اور یہ کہتے رہے کہ ’’آپ اور دنیا جانتی ہے‘‘۔ بظاہر وہ یہ باور کروانے کی کوشش کررہے تھے کہ اُن کیخلاف فوجی سازش کررہے ہیں، اُنہوں نے کئی بار سلامتی کے اداروں کا ذکر بھی کیا لیکن پوری اخباری کانفرنس میں اُنہوں نے یہ نہیں بتایا کہ برطانیہ میں اُن کے بیٹوں سمیت خاندان کے افراد نے جو جائیدادیں خریدیں وہ پیسہ کہاں سے آیا تھا۔

نواز شریف نے احتساب عدالت کے فصلے کیخلاف اور اپنی حمایت میں عوام سے سڑکوں پر نکلنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ’’پوری قوم کو باہر نکلنا چاہیے اور میرا ساتھ دینا چاہیے، عوام سیاسی نظام میں مداخلت برداشت نہیں کریں گے جبکہ مجھے دی جانے والی سزا کہیں اور سے آئی ہے‘‘۔ اُنہوں نے مذکورہ ’’کہیں اور‘‘ کی وضاحت نہیں کی اور نہ کسی فوجی جرنیل کا نام لیا لیکن بظاہر اُن کا اشارہ فوج کی طرف تھا جس سے پتہ چلتا ہے کہ سابق وزیراعظم چاہتے ہیں کہ عوام فوج کیخلاف احتجاج کیلئے سڑکوں پر آجائے۔ اُن کی جماعت مسلم لیگ ن کے ٹوئیٹر سے ایک اشتہار بھی جاری کیا گیا ہے جس میں نواز شریف کے یہ الفاظ جلی حروف میں درج ہیں کہ ’’پوری قوم کو باہر نکلنا چاہیئے، میرا ساتھ دیں‘‘۔ لیکن گزشتہ روز سے پاکستان میں کہیں بھی کوئی قابلِ ذکر احتجاجی مظاہرے کی اطلاعات نہیں ہیں۔