دہشتگردی کیخلاف پاکستان کی قربانیاں نظرانداز، نگرانی فہرست کے زمرے میں شامل

 (پیرس۔اُردونیٹ پوڈکاسٹ 8 جمادی الثانی 1439ھ)  پاکستان کی عالمی ساکھ بگاڑنے اوراسے مالیاتی طور پرعدم استحکام کا شکار کرنے کیلئے امریکہ اور برطانیہ کی کوشش رنگ لارہی ہے کیونکہ اطلاعات کیمطابق مالیاتی کارروائی ہدف فورس (ایف اے ٹی ایف) کے اجلاس میں دہشتگردوں کی مالی معاونت کرنے والے ممالک کی فہرست کے ابتدائی زمرے میں پاکستان کا نام شامل رکھنے کا فیصلہ ہے۔

اطلاعات کیمطابق جُون سے پاکستان ایف اے ٹی ایف کی فہرست کے گِرے زُمرے میں عملی طور پر شامل ہوگا جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کو ان ملکوں کی فہرست میں شامل کیا جاسکتا ہے جن پر دہشت گردوں کی معاونت کا الزام لگایا جاتا ہے۔ اس پر نہ صرف کڑی نظر رکھی جائیگی بلکہ پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری، عالمی اداروں سے پاکستان کو ملنے والے قرضوں اور پاکستان کی معیشت پر شدید منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

اہم بات یہ ہے کہ 1979ء رُوس کے افغانستان پر قبضے کے بعد پاکستان اور امریکہ کے درمیان جو اتحاد قائم ہُوا تھا 2018ء میں وہی امریکہ عالمی سطح پر پاکستان کی معیشت مفلوج کرنے کیلئے قائدانہ طور پر سب سے آگے ہے جبکہ اُس کی ان کوششوں میں برطانیہ، فرانس، جرمنی اور بھارت سمیت دیگر ممالک اُس کے ساتھ ہیں۔

یہ اطلاعات بھی ہیں کہ پاکستان کا دیرینہ دوست چین اور سعودی عرب سمیت خلیجی ممالک بھی پاکستان کا ساتھ نہ دے سکے۔ صرف تُرکی واحد دوست ملک ہے جو پاکستان کو گِرے زُمرے میں ڈالنے کی آخر تک بھرپور مخالفت کرتا رہا۔

امریکہ، برطانیہ اور بھارت کی حکومتوں اور مغربی ذرائع ابلاغ نے بین الاقوامی طور پر پاکستان کیخلاف منفی تاثر دینے میں کسی حد تک کامیابی حاصل کرلی ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ دو تین ہفتوں سے امریکہ اور برطانیہ سمیت پاکستان مخالف ملکوں کے ذرائع ابلاغ مسلسل یہ خبریں پھیلارہے تھے کہ پاکستان کا نام دہشتگردی کی معاونت کرنے والے ملکوں کی فہرست میں شامل کیے جانے کا امکان ہے۔

دوسری جانب، حکومت پاکستان نے اس بارے میں ابھی تک کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا ہے جس سے کاروباری حلقوں میں بے یقینی پائی جاتی ہے۔ پاکستان کی وزارتِ خزانہ سمیت کسی وزیر یا اعلیٰ عہدیدار نے ایسا کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا جس سے یہ پتہ چل سکے کہ ایف اے ٹی ایف کے اجلاسوں کے بعد نتیجہ کیا رہا اور کن ملکوں نے پاکستان کی حمایت یا مخالفت کی۔

اس صورتحال سے بھارتی اور دیگر ذرائع ابلاغ فائدہ اُٹھارہے ہیں اور اس معاملے پر پاکستان سے متعلق منفی خبروں کو اُجاگر کررہے ہیں جن سے غیر یقینی پھیل رہی ہے۔

 تجزیہ کاروں کیمطابق امریکہ اپنے اہداف کیمطابق پاکستان کی طرف سے تعاون نہ ملنے پر اپنے دیرینہ اتحادی پاکستان کی مالیاتی ساکھ کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے تاکہ اسلام آباد پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈال کر خطّے اُسے اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرسکے۔ بعض تجزیہ کار اِسے پاکستان کیخلاف امریکہ اور بھارت کی منظم اور جارحانہ پالیسی قراردیتے ہوئے خدشہ ظاہر کررہے ہیں عراق کی طرح پاکستان کو اقتصادی پابنیوں کے ذریعے زیادہ سے زیادہ کمزور کرنے کی کوشش کی جائے گی جس کے بعد کسی بھی امریکی اقدام کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔