جمہوریت اور قانون کے چیمپئن ملکوں میں مسلمانوں اور پناہ گزینوں پر حملے عام بات ہوگئی: اردوغان

(استنبول۔اُردونیٹ پوڈکاسٹ 2 شعبان 1439ھ)  ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے مغربی ممالک پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ جمہوریت اور قانون کے چیمپئن ملکوں میں مسلمانوں اور پناہ گزینوں پر حملے عام سی بات ہوگئی ہے۔ وہ استنبول میں عالمی مسلم اقلیتوں کے سربراہ اجلاس میں گفتگو کررہے تھے جس میں اُن 100 ملکوں سے آئے ہوئے ماہرینِ تعلیم، صحافیوں اور مسلم نمائندوں سمیت دیگر نے شرکت کی جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں۔

اس سربراہ اجلاس کی میزبانی ترکی میں مذہبی اُمور کا ادارہ کررہا ہے۔  اپنی نوعیت کے اس پہلے اجلاس کا مقصد غیراسلامی ملکوں میں مقیم مسلمانوں اور ترکی کے مابین تعلقات بڑھانا ہے۔ افتتاحی خطاب میں صدر اردوغان نے مغربی ملکوں پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنا نظریہ اور طرزِ زندگی تھوپنے کیلئے اسلام مخالف رجحان کو ہوا دے رہے ہیں۔ اُنہوں نے مغربی ممالک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’وہ اِس مقصد کی تکمیل کیلئے بنائے گئے دہشتگرد گروہوں کے ذریعے اسلام کو بدنام کرنا چاہتے ہیں‘‘۔

ترک صدر نے نشاندہی کی کہ ’’خاص طور پر جرمنی، ہالینڈ، فرانس اور بیلجیئم میں متعصب اور فسطائی گروہ مسلمانوں سے تعلق والے کاروبار، گھروں اور عبادت کے مقامات کو نشانہ بناتے ہیں  جبکہ مسلمان خواتین کو ہراساں کیا جاتا ہے کیونکہ وہ حجاب پہنتی ہیں، مثال کے طور پر فرانس میں ایسا کیا جاتا ہے‘‘۔

اُنہوں نے 11 ستمبر کے واقعے کے بعد مسلمانوں کیخلاف مجرمانہ گروہوں کے ذریعے حملوں کی کثیرتہوں اور کثیراطراف  کیجانب توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ داعش، بوکوحرام، الشباب اور فیتو وغیرہ یہ سب ہمیں نقصان پہنچاتے ہیں اور اسلام مخالف حلقوں کو مواقع دیتے ہیں کہ اسلام کو بدنام کریں۔ جناب اردوغان نے کہا کہ وہ (مغربی ممالک) مسلمانوں کی حالتِ زار اور اِن گروہوں کیجانب سے مسلمانوں کے قتل کو نظرانداز کرتے ہیں بلکہ وہ تو اس طرح کے ظالمانہ قتل کا ذمہ دار مسلمانوں کو ٹھہراتے ہیں۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ زیادہ تر مغربی ممالک اپنے اندرونی مسائل سے توجہ ہٹانے کیلئے اِس آگ کو بھڑکاتے ہیں۔  

صدر اردوغان نے اپنے خطاب میں مسلمانوں کی زندگیوں سے متعلق مغرب کے دوہرے معیار کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔ اُنہوں نے کہا کہ ’’ہم جانتے ہیں کہ جب مغربی طاقتوں کے مفادات متاثر ہوں تو وہ کِس طرح طیش میں آتے ہیں، جب منڈیوں میں حصّے یا تیل، سونا اور ہیرے کے ذخائر حاصل کرنے کی بات ہو تو وہ ایسی شارکوں کی طرح ہیں جو خون کی خوشبو کی طرف راغب ہوتی ہیں اور وہ اپنے مفادات کیلئے ہزاروں کلومیٹر دور جاتے ہیں جبکہ فلسطین، میانمار کے رخائن اور شام میں نسل کشی پر آنکھیں بند کرلیتے ہیں۔ ترک صدر نے کہا کہ وہ (مغربی ممالک) داعش سے لڑائی کی آڑ میں صرف کسی ملک کے وسائل پر قبضہ کرنے اور خود اپنے مقاصد کیلئے نئے دہشتگرد گروہوں کی توثیق کرنے کا سوچتے ہیں۔

صدر اردوغان نے شام میں مبینہ کیمیائی حملے کے جواب میں امریکہ، برطانیہ اور فرانس کیجانب سے شام پر مشترکہ حملے کا ذکرکرتے ہوئے کہا کہ ’’مسلمان اپنے مسائل خود حل کرنے میں ناکام ہوگئے اور جو اسلام کے باہر سے ہیں وہ انہیں حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘‘۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ اس سے قطع نظر کہ کس قسم کا بم لوگوں کو ہلاک کرتا ہے، یہ ایک جرم ہے۔ اُنہوں نے نشاندہی کی کہ کیمیائی ہتھیار لوگوں کو ہلاک کرتے ہیں لیکن روایتی ہتھیاروں نے دیگر لاکھوں لوگوں کو ہلاک کیا ہے۔ تاہم وہ (مغرب) اس بارے میں کبھی نہیں بولتے۔