جرمنی میں ترک باشندوں کی ہلاکت کی 25 ویں برسی، میرکل اور ترک وزیرِخارجہ کی غیرملکیوں سے نفرت کی مذمّت

(زولنگن۔اُردونیٹ پوڈکاسٹ 14 رمضان 1439ھ) جرمنی کے شہر زولنگن میں 25 سال قبل پانچ ترک شہریوں کو آتشگیر مادے سے اُن کے گھر پر حملہ کرکے ہلاک کردینے کی 25 ویں برسی منگل کے روز منائی گئی ہے جس میں چانسلر انجیلا میرکل، وزیرِ خارجہ ہائیکو ماس اور ترک وزیرِ خارجہ میولود چاوش اوغلو نے بھی شرکت کی جو ان تقریبات میں شرکت کیلئے خصوصی طور پر جرمنی پہنچے ہیں۔ ایک اور تقریب ڈسلڈورف شہر میں بھی منعقد ہوئی جہاں ہلاک شُدگان کی یاد منائی گئی۔

زولنگن شہر میں مقیم ترکی کے ایک ہی خاندان کے پانچ افراد کو 29 مئی 1993ء کو جرمنی کے دائیں بازو کے ایک نسل پرست انتہاء پسند گروہ نے اُن کے گھر پر حملہ کرکے ہلاک کردیا تھا۔ پانچوں افراد جل کر ہلاک ہوئے تھے جن میں چار بچّے شامل تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں دو خواتین اور ایک چار سالہ بچّی بھی شامل ہے جو سب سے کم عمر تھی۔ پانچوں افراد کو نفرت اور نسل پرستی کی بنیاد پر ہلاک کیا گیا تھا۔

ترک وزیر خارجہ متاثرہ خاندان کی خاتون سے ملاقات کرتے ہوئے
محترمہ انجیلا میرکل نے بھی متاثرہ خاندان کی خاتون سے ملاقات کی اور اظہارِ تعزیت کیا

جرمن چانسلر انجیلا میرکل نے یادگاری تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’غیرملکیوں اور اُن کے مذہب سے نفرت، نسل پرستی اور یہودی مخالفت کی جرمنی یا دنیا میں کہیں بھی جگہ نہیں ہوسکتی‘‘۔ اس موقع پر متاثرہ خاندان کی زندہ بچ جانے والی رُکن میولود گینچ اور ترک وزیرِ خارجہ میولود چاوش اوغلو بھی موجود تھے۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ترک وزیرِ خارجہ نے اِس بات پر شدید تشویش کا اظہار کیا کہ یورپ کے سب سے بڑے ملک میں ایک مرتبہ پھر زینوفوبیا یعنی غیرملکیوں اور اُن کے مذہب سے نفرت اور اسلاموفوبیا اُبھر رہے ہیں۔ اُنہوں نے نسل پرستی کیخلاف محترمہ میرکل کے موقف کو سراہا اور اُنہیں ترکی کی جانب سے ہرممکن مدد کی پیشکش کی۔

جرمن وزیرِ خارجہ ماس نے غیرملکیوں اور اُن کے مذہب سے نفرت (زینوفوبیا) اور تعصب کیخلاف سخت کوششیں کرنے پر زور دیا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’’زولنگن میں ہلاک ہونے والے ہمارے لیے ایک یاددہانی ہیں کہ نہ بھولنا، نہ نظریں چُرانا اور نہ خاموش رہنا‘‘۔ اُنہوں نے نسل پرستانہ حملے پر گہرے رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے باور کروایا کہ ’’زولنگن کا خوفناک واقعہ ہم سب پر حملہ تھا، ہماری اقدار پر اور ہماری پُرامن سماجی ہم آہنگی پر حملہ تھا‘‘۔ وزیرِ خارجہ ماس نے یہ عزم بھی ظاہر کیا کہ نسل پرستی اور نفرت انگیزی کیخلاف جنگ جاری رہے گی۔

جرمنی میں مسلمانوں کا کہنا ہے کہ زولنگن واقعے کے 25 سال گزرجانے کے بعد آج ملک میں غیرملکیوں، خاص طور پر مسلمانوں کیخلاف نفرت اور نسلی پرستی پہلے سے زیادہ شدید ہوگئی ہے۔ جرمنی کے کئی شہروں میں مسلمانوں پر حملے، تشدّد اور مساجد پر اکثروبیشتر حملے ہوتے رہتے ہیں۔ صرف جرمنی ہی نہیں بلکہ برطانیہ، فرانس، ہالینڈ، آسٹریا، امریکہ اور کینیڈا میں اسلاموفوبیا تیزی سے بڑھتا جارہا ہے جہاں اسلام اور مسلمان مخالف سیاستدان اور عہدیدار اسلام، اسلامی طرزِ زندگی اور مسلمان ممالک کے رہنماؤں کو اپنی تنقید کا متعصانہ نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ ان ممالک میں مسلمانوں کی مساجد اور گھروں پر حملوں کے علاوہ ریستورانوں اور دیگر عوامی مقامات پر فحش الفاظ سے پکارا جاتا ہے اور دھمکیاں دی جاتی ہیں۔