برطانوی بچّوں میں موٹاپے کے مسائل، لندن کے ناظم کی جَنک فوڈز کے اشہارات پر پابندی کی تجویز

(لندن۔اُردونیٹ پوڈکاسٹ 26 شعبان 1439ھ)  برطانوی بچّوں میں موٹاپے کے مسائل کی وجہ سے لندن کے ناظم صادق خان نے جَنک فوڈز کہلانے والی غذائی اشیاء کے اشتہارات پر پابندی کی تجویز پیش کردی ہے۔ مذکورہ غذاؤں میں چکنائی، نمک اور شکر کی مقدار عام غذاؤں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے اسلیے اپنے بچّوں کی صحت کا اچھّی طرح خیال رکھنے والے والدین اِن غذاؤں سے اپنے بچّوں کو دور رکھتے ہیں۔ نہ صرف برطانیہ بلکہ یورپ کے کئی ممالک، امریکہ اور تیزی سے معاشی ترقّی کرنے والے ملکوں میں بھی موٹاپے کے سنجیدہ مسائل ہیں جن پر اکثر بحث ہوتی رہتی ہے۔

لندن کے ناظم نے صادق خان نے بچّوں میں موٹاپے کے مسائل پر قابو پانے کیلئے برطانوی دارالحکومت میں بسوں اور ریل گاڑیوں سمیت نقل وحمل کے نظام میں جَنک فوڈز غذاؤں کے اشہارات پر پابندی کی تجویز دیدی ہے۔ اُنہوں نے اسکولوں سے 400 میٹر کے فاصلے پر واقع ایسے ریستورانوں پر بھی پابندی لگانے کی تجویز دی ہے جو گرم جَنک فوڈز خرید کر لے جانے کی سہولت فراہم کررہے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ ’’لندن میں بچّوں کا موٹاپا ٹِک ٹِک کرتا ٹائم بم ہے اور میں کارروائی کرنے کیلئے پُرعزم ہوں‘‘۔

اپنے بیان میں ناظم صادق خان نے شہریوں کو مخاطب کرکے کہا کہ ’’لندن جیسے خوشحال شہر میں کہ جہاں آپ بستے ہیں یہ درست نہیں ہوسکتا اور  آپ کے پاس جو آمدنی ہے اُس کا اور جَنک فوڈ اشتہارات کی زد میں آنے کا اِس امر پر بڑا اثر ہوسکتا ہے کہ آیا آپ کو صحت بخش، غذائیت سے بھرپورغذا تک رسائی حاصل ہے یا نہیں‘‘۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ ’’اسی وجہ سے میں، ہمارے پورے ریلوے اور بس نظام پر نقصان دہ جَنک فوڈ کے اشتہارات پر پابندی لگانے کی تجویز دے رہا ہوں‘‘۔

بتایا جاتا ہے کہ لندن میں 10 اور 11 سال کی عمر کے لگ بھگ 40 فیصد بچّوں کا وزن زیادہ ہے یعنی وہ موٹے ہیں۔

پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، ملائیشیاء، مشرقِ وسطیٰ اور جاپان وجنوبی کوریا جیسے مشرقِ بعید کے ممالک میں بھی بچّوں میں جَنک فوڈز کا استعمال تیزی کیساتھ بڑھ گیا ہے جبکہ غذائی ماہرین کھانے پینے کی ایسی اشیاء کے مضرِ صحت ہونے کے بارے میں خبردار کرتے رہے ہیں۔

جَنک فوڈز میں جس تیل یا چکنائی کا استعمال کیا جاتا ہے وہ زیادہ تر سؤر کی ہوتی ہے یا اُس میں کسی حد تک سؤر کا تیل شامل ہوتا ہے جیسا کہ لارڈ (Lard) جو کہ جَنک فوڈ سمیت دیگر کھانوں میں عام استعمال ہوتا ہے۔ مزید برآں، جی ایم او (GMO) یعنی جینیاتی طور پر تبدیلی کے ذریعے پیدا کی جانے والی سبزیوں یا جانوروں کے گوشت سے تیار کیے گئے تیل یا چکنائی بھی عام ہوتے جارہے ہیں۔ بعض زرعی اور غذائی ماہرین نے جینیاتی طور پر تبدیلی کرکے اُگائی جارہی سبزیوں کے مضرِ صحت ہونے کا دعویٰ کیا ہے جن میں کارن یعنی بھُٹّا، سورج مکھی کا پھول، تلّی کے بیج اور سویا بین شامل ہیں۔

یاد رہے کہ آج کل ایسی مختلف سبزیوں یا بیج سے بنائے گئے سبزیوں کے تیل یا ویجیٹبل آئل عام ہیں جنہیں جینیاتی تبدیلی سے اُگایا گیا۔ ایسے تیل میں کینولا آئل بھی شامل ہے۔ حلال غذاؤں اور اشیاء کے ماہرین میں بھی یہ موضوع زیرِبحث ہے کہ آیا جینیاتی طور پر تبدیلی کے ذریعے پیدا کی گئی سبزیاں یا گوشت حلال ہیں یا نہیں۔

امریکہ میں جینیاتی تبدیلیوں کے ذریعے پیدا کی جانے والی سبزیوں پر اُٹھائے جانے والے اعتراضات پر اب برسوں بعد امریکی محکمہٴ زراعت نے تجویز دی ہے کہ ایسی غذاؤں پر ‘‘بائیوانجینئرڈ‘‘ BE کا نشان یا لیبل لگایا جائے تاکہ خریدار کو واضح طور پر پتہ چل سکے کہ وہ کس قسم کی غذائی شے یا خوراک خریدرہا ہے۔ یہ تجویز بھی ہے کہ کسی بھی غذائی مصنوعات کے اجزائے ترکیبی میں جینیاتی طور پر تبدیل زرعی اشیاء سے تیارکردہ مصالحہ جات وغیرہ شامل ہونے کی صورت میں بھی واضح طور پر نشاندہی کی جائے کہ مصالحہ جات یا اجزائے ترکیبی میں جی ایم او شامل ہے۔