ایرانی وزیرِخارجہ کی پاکستان کے وزیراعظم سے ملاقات، تجارتی واقتصادی تعلقات بڑھانےپراتفاق

(اسلام آباد۔اُردونیٹ پوڈکاسٹ 25 جمادی الثانی 1439ھ)  پاکستان کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی  اور ایران کے وزیرِ خارجہ جواد ظریف نے دونوں ملکوں کے مابین تجارتی اور اقتصادی تعلقات بڑھانے کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ ایرانی وزیرِ خارجہ نے پاکستان کے سہ روزہ دورے کے دوران وزیراعظم عباسی کے علاوہ وزیرِ خارجہ خواجہ آصف اور پاکستان کی قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق سے بھی ملاقات کی۔

پاکستان کے وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی نے ایوانِ وزیراعظم میں ایرانی وزیرِ خارجہ سے ملاقات کے دوران کہا کہ ایران کیساتھ تجارت، سرمایہ کاری اور اقتصادی تعاون بڑھانا چاہتے ہیں اور 2021ء تک دو طرفہ تجارت پانچ ارب ڈالر تک لے جانے کیلئے ملکر کام کرنا ہو گا۔

اِس موقع پر خطے میں امن وسلامتی اور دو طرفہ تعلقات کی مضبوط بنانے پر تبادلہٴ خیال کیا گیا۔ وزیرِاعظم عبّاسی نے علاقائی اقتصادی اشتراک کے لیے رابطوں کے فروغ کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان مشترکہ ترقی وخوشحالی کے لیے امن اور علاقائی رابطوں کے تصوّر پر عمل پیرا ہے۔ اُنہوں نے پاکستان اور ایران کے درمیان گیس پائپ لائن منصوبے پر عملدرآمد سے متعلق اُمور کے حل کے عزم کا اعادہ بھی کیا۔

وزیرِاعظم عبّاسی کا کہنا تھا کہ خطّے کی خوشحالی کے لیے افغانستان میں امن واستحکام ضروری ہے جبکہ افغانستان میں امن واستحکام کیلئےبڑھانے کی اہمیت پر زور پاکستان اور ایران اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اُنہوں نے مسئلہ مقبوضہ کشمیر سے متعلق کشمیریوں کی اُصولی جدوجہد کی حمایت پر ایرانی قیادت کا شکریہ ادا کیا۔ ایرانی وزیرِخارجہ جواد ظریف نے دونوں ملکوں کے اعلیٰ سطحی رابطوں کے فروغ کا خیر مقدم کرتے ہوئے غیر قانونی سرگرمیوں کی روکتھام کے لیے پاکستان کے سرحدی انتظام کو سراہا۔

سعودی عرب اور ایران کے درمیان بڑھتے ہوئے اختلافات کی وجہ سے پاکستان کو مشرقِ وسطیٰ کے ملکوں اور ایران کیساتھ متوازن تعلقات رکھنے میں مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ اسلام آباد کے ریاض کیساتھ تعلقات ہر دور میں مضبوط ومستحکم رہے ہیں۔ لیکن پاکستانی ذرائع ابلاغ کے کُچھ حلقے سعودی عرب سے پاکستان کے تعلقات کے بارے میں تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ایران سے بھی مستحکم تعلقات کی اہمیت پر زور دیتا رہا ہے۔ لیکن پاکستان کے وسیع حلقوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ تہران، پاکستان میں فرقہ پرستی کو فروغ دینے کی کوشش کررہا ہے جبکہ ایران کے ذریعے بھارتی جاسوسوں کی پاکستان میں دہشتگردانہ سرگرمیوں کے واقعات منظر عام پر آنے کے بعد وسیع حلقوں میں ایران سے متعلق تشویش پائی جاتی ہے۔

پاکستان کے بعض تجزیہ کار ایران کو پاکستان کے دوست سے زیادہ بھارت کا حلیف قراردیتے ہیں۔ خاص طور پر ایران کیجانب سے چاہ بہار بندرگاہ کے انتظامات بھارت کو دیے جانے کے بعد پاکستان میں ایران سے متعلق تحفظات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ یہ بندرگاہ پاکستان کی گوادربندرگاہ کے قریب واقع ہے اور بھارت اسے افغانستان سے درآمدات وبرآمدات کیلئے استعمال کرے گا۔