امریکہ نے اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی رکنیت چھوڑدی

(جنیوا۔اُردونیٹ پوڈکاسٹ 6 شوال 1439ھ) امریکہ نے اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی رکنیت چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے اِس ادارے کے اراکین پر منافق اور اسرائیل مخالف ہونے کا الزام عائد کیا ہے۔

غزہ میں رواں سال 30 مارچ سے شروع ہونے والے فلسطینیوں کے احتجاجی مظاہروں پر اسرائیلی فوج کی بے دریغ فائرنگ اور گولہ باری سے 128 سے زائد فلسطینیوں کی ہلاکت اور 13 ہزار سے زائد کے زخمی ہوجانے پر اسرائیل کو عالمی برادری کیجانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا جبکہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ تارکینِ وطن کو ملک سے بیدخل اور بچّوں کو اپنے والدین اور خاندان سے علیحدہ کرنے کے حالیہ اقدام پر نہ صرف ملک بلکہ بیرونِ ملک بھی غیرمعمولی تنقید کی زد میں ہیں۔

اقوامِ متحدہ میں امریکہ کی سفیر نکی ہیلی نے وزیرخارجہ مائیک پومپیئو کے ساتھ ایک مشترکہ اخباری کانفرنس اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کو ’’منافقانہ‘‘ قراردیتے ہوئے کہا کہ یہ کونسل انسانی حقوق کا مذاق بنا رہی ہے۔ 

امریکہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل پر اسرائیل مخالف ہونے کا الزام عائد کرتا رہا تھا اور نہ صرف اس کونسل بلکہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی میں بھی اسرائیل مخالف قراردادوں کیخلاف ووٹ دیتا رہا ہے۔ اسرائیل کیجانب سے تاریخ کی بدترین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے باوجود جن میں غزہ کی پٹّی کی ایک دہائی سے ناجائز ناکہ بندی، غزہ سمیت فلسطینی علاقوں پر فضائی حملے اور غزہ ہی میں حالیہ مظاہروں کے دوران بڑی تعداد میں ہلاکتیں شامل ہیں، امریکہ اُس کیخلاف کسی بھی بین الاقوامی تادیبی کوشش کو روکتا ہے۔

اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گتیرس نے امریکی فیصلے پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ امریکہ کونسل کا رُکن رہے۔ دوسری جانب، اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمشنر زید رعد الحسین نے امریکی فیصلے کو ’’مایوس کن‘‘ قرار دیا ہے تاہم اُنہوں نے اس پر حیرت کا اظہار نہیں کیا کیونکہ توقع کی جاری تھی کہ اس کونسل میں اپنی بات منوانے میں ناکامیوں کے بعد واشنگٹن اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے دستبردار ہوجائے گا۔ جناب رعد الحسین نے تارکینِ وطن کے بچّوں کو والدین سے علیحدہ کرنے کی حالیہ امریکی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے اِسے ’’بے ضمیر‘‘ قراردیا تھا۔

امریکی سفیر نکی ہیلی کا کہنا تھا کہ کونسل سے نکلنے کا مقصد انسانی حقوق کی ذمہ داریوں سے پیچھے ہٹنا نہیں ہے۔ اس سے اشارہ ملتا ہے کہ اب واشنگٹن انفرادی طور پر اپنے من پسند اُصول کے تحت ملکوں پر دباؤ ڈالے گا۔ یہ سوال بھی اُٹھایا جارہا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی میں امریکہ کی بڑھتی ہوئی تنہائی کس نتیجے پر پہنچے گی اور آیا امریکہ مزید تنہائی کی صورت میں عالمی ادارے ہی سے نکلنے کی دھمکی دے سکتا ہے۔

اسرائیل کیجانب سے انسانی حقوق کے بدترین خلاف ورزیوں پر واشنگٹن کا موقف اور تارکینِ وطن سے متعلق ٹرمپ انتظامیہ کی حالیہ پالیسی کے تناظر میں دنیا بھر میں انسانی حقوق کے حوالے سے امریکی پالیسی اور موقف کو اب کمزور سمجھا جاتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے امریکہ کی دستبرداری پر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ واشنگٹن دلیل کے ذریعے اپنی بات ثابت کرنے اور منوانے میں مسلسل ناکامی کا منہ دیکھ رہا ہے اور اگر امریکہ نے اپنی پالیسی پر نظرثانی نہ کی تو ناکامی کا یہ سلسلہ دراز ہوتا جائے گا۔