اسلامی لباس برداشت کیا جانا چاہیئے، حجاب پہنی خواتین کا احترام کرتا ہوں، فرانسیسی صدر

(پیرس۔اُردونیٹ پوڈکاسٹ 2 شعبان 1439ھ)  فرانس کے صدر ایمانوئیل میکخواں نے ایک فرانسیسی ٹی وی سے انٹرویو کے دوران کہا ہے کہ اسلامی لباس برداشت کیا جانا چاہیئے۔ بظاہر وہ حجاب سے متعلق گفتگو کررہے تھے۔ اُنہوں نے کہا کہ فرانس صنفی برابری کیلئے پرعزم ہے اور اسکارف (حجاب) پر بحث خواتین پر جبر کیخلاف جاری لڑائی کا حصّہ ہے۔

حجاب ہی سے متعلق پوچھے گئے اس سوال پر کہ وہ اسکارف پہنی خاتون کو دیکھ کر کیسا محسوس کرتے ہیں، میکخواں کا کہنا تھا کہ میں کوئی خاص طور پر خوش نہیں کہ بعض خواتین جب کہ وہ عام لوگوں میں ہوں تو ہیڈاسکارف پہننے کا انتخاب کریں لیکن اِسے لازمی برداشت کیا جانا چاہیئے۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ وہ حجاب پہنی خواتین کا احترام کرتے ہیں لیکن یہ زور بھی دیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہیں گے کہ وہ (خواتین) حجاب اور ہیڈاسکارف ذاتی خواہش پر پہن رہی ہیں۔

یاد رہے کہ فرانس سخت اور منفرد لادینیت سے وابستہ ہے جس کا مقصد مذہب کو عوامی زندگی سے دور رکھنا ہے۔ لیکن فرانسیسی صدر میکخواں  نے ہیڈاسکارف پر پابندی لگانے کو مُسترد کیا جو کہ 2004ء سے سرکاری اسکولوں اور سرکاری مقامات میں ممنوع ہے۔ فرانس میں 2011ء سے عوامی مقامات پر مسلمان خواتین کے برقع پہننے پر پابندی عائد ہے۔ اسی لیے فرانس کے مسلمان ملک میں امتیازی سلوک اور عدم مساوات کیجانب توجہ مبذول کرواتے رہے ہیں۔

میکخواں نے بتایا کہ فرانس میں اسلام خاص کر ہجرت اور آبادی میں اضافے کے بعد پھیلا ہے جبکہ اس وقت لگ بھگ 45 سے 60 لاکھ  فرانسیسی شہری مسلمان ہیں۔ یادرہے کہ فرانس کے شہروں میں مساجد بڑی تعداد میں ہیں اور دن بدن مسلمان آبادی میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ قدامت پسند فرانسیسی، خاص طور پر فرانس کے بعض ذرائع ابلاغ ملک میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی پر تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ دوسری جانب، فرانس کے مسلمان شہریوں کا کہنا ہے کہ اُنہیں تعلیم اور روزگار کے مواقع عام فرانسیسی شہریوں کے مقابلے میں کم میسر ہیں جبکہ اُن کی تنخواہیں اور اُجرتیں بھی عام ملازمین کے مقابلے میں کم ہی ہوتی ہیں۔ مزید برآں، محض مسلمان ہونے کی وجہ سے مسلمان بچّوں اور مردوخواتین کو معاشرے میں تعصّب کا سامنا رہتا ہے جبکہ امریکہ میں 11 ستمبر کے واقعات کے بعد اُنہیں دہشتگرد قراردیا جاتا ہے۔

صدر میکخواں نے انٹرویو کے دوران صحافیوں کے سوالات کے جواب بھی دیئے۔ ایک سوال پر اُن کا کہنا تھا کہ ’’ہم مرد اور عورت کے درمیان برابری کے پاسدار ہیں لیکن ہمیں صنفی برابری اوراس کی اہمیت پر لوگوں کو قائل کرنے کی غرض سے وضاحت کیلئے لازمی مزید کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم عوامی مقامات پر مسلم حجاب پر پابندی لگادینے سے منفی اثر ہوگا‘‘،

اُنہوں نے یہ نشاندہی بھی کی کہ ‘‘فرانسیسی ریاست لادینی ہے لیکن فرانسیسی معاشرہ نہیں، اور مسلمان خواتین جو چاہتی ہیں اُنہیں وہ پہننے کی اجازت ہونی چاہیئے‘‘۔

صدر میکخواں نے کہا کہ متحد رہنے کیلئے ہمیں مذاہب اور معاشرے کے مابین تعلقات کو لازمی پرامن بنانا ہوگا اور یہ یقینی بنانا ہوگا کہ لوگ اس بات کو سمجھیں کہ انتہاء پسند اسلام، اسلام نہیں ہے۔

یاد رہے کہ فرانس میں ایک اندازے کیمطابق 60 لاکھ کے قریب مسلمان آباد ہیں لیکن حالیہ سالوں میں مسلمانوں اور مساجد پر حملوں کے درجنوں واقعات رونما ہوئے جبکہ جرم کے ایسے کسی بھی واقعے کو ذرائع ابلاغ فرانس اور فرانسیسی معاشرے کیلئے اسلامی خطرے کے طور پر پیش کرتے ہیں جس میں کوئی مسلمان ملوّث ہو۔ لیکن امریکہ سمیت دیگر مغربی ممالک میں جب کوئی غیرمسلم حتیٰ کے کھلے عام فائرنگ کرکے درجنوں بیگناہ لوگوں کے قتل جیسا گھناؤنا جرم بھی کردے تو اُس کا مذہب نہیں بتایا جاتا بلکہ اُسے ذہنی مریض، نفسیاتی شخص یا شُوٹر قرار دے کر واقعے کی سنگینی کو کم ازکم ظاہر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ذرائع ابلاغ اور حکومتوں کے اسی تضاد نے معاشرے کے کئی حلقوں کو مسلمان اور اسلام مخالف بنادیا ہے۔ تاہم کئی غیرمسلم دانشور اور سنجیدہ طبقے کے افراد اِس رجحان پر تنقید بھی کررہے ہیں لیکن ذرائع ابلاغ ایسی شخصیات کو کم ہی سامنے لاتے ہیں۔