اسرائیلی فائرنگ سے 16 فلسطینیوں کی ہلاکت پر امریکہ،برطانیہ،فرانس،چین،رُوس،جرمنی اورجاپان کی خاموشی

(ٹوکیو۔اُردونیٹ پوڈکاسٹ 16 رجب 1439ھ)  گزشتہ جمعہ کے روز غزہ میں اسرائیلی فوج کی پُرامن فلسطینی مظاہرین پر اندھا دھند فائرنگ اور گولہ باری سے 16 فلسطینیوں کی ہلاکت اور 1400 سے زائد فلسطینی زخمی ہوجانے پر امریکہ، برطانیہ، فرانس، چین، رُوس، جرمنی اور جاپان نے ابھی تک سرکاری طور پر مذمّت نہیں کی ہے جس پر بین الاقوامی سفارتی حلقوں اور اسلامی ممالک میں حیرت کا اظہار کیا جارہا ہے۔

اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی ایک ہنگامی اجلاس میں اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے فلسطینیوں کی ہلاکت پر تشویش کا اظہار کیا ہے جبکہ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گتریس نے واقعے کی آزاد اور شفّاف تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

نیویارک میں ایک اعلیٰ سفارتکار نے اُردونیٹ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ یا یورپی ملکوں میں اگر کسی ہلاکت خیز واقعے میں کوئی مسلمان ملوث ہو تو تمام یورپی ممالک، امریکہ اور اُن کے اتحادی یک آواز ہوکر واقعے کی مذمّت کرتے ہیں اور یکے بعد دیگرے اُس ملک اور وہاں کے عوام سے اظہارِ ہمدردی اور اظہارِ یکجہتی بھی کیا جاتا ہے۔ لیکن مذکورہ سفارتکار نے نشاندہی کی کہ 16 فلسطینیوں کی ہلاکت اور 1400 سے زائد فلسطینیوں کے اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے زخمی ہونے پر امریکہ اور برطانیہ سمیت اُن کے اتحادی ممالک بھی مذمّت نہیں کررہے۔  اعلیٰ سفارتکار نے اِس روّیے کو غیرمنصفانہ، بین الاقوامی اُصولوں کے خلاف اور نسل پرستانہ طرزِ عمل قراردیا ہے۔

مسلمان ممالک کے عوام اور غیراسلامی ملکوں میں مقیم مسلمانوں نے بھی امریکہ، برطانیہ، فرانس، چین، رُوس، جرمنی، کینیڈا اور جاپان سمیت دیگر ممالک کیجانب سے اسرائیلی فوج کی فائرنگ اور گولہ باری سے 16 فلسطینیوں کی ہلاکت اور 1400 سے زائد فلسطینیوں کے زخمی ہونے پر اسرائیل کی مذمّت نہ کرنے پر افسوس اور حیرت کا اظہار کیا ہے۔

برطانیہ کے شہر لندن میں مقیم فاروق احمد نے اُردونیٹ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سلامتی کونسل کے پانچوں مستقل ارکان سمیت کینیڈا اور یورپی ممالک نے پُرامن فلسطینیوں کیخلاف اسرائیل کی وحشیانہ فوجی کارروائی کی مذمّت نہ کرکے ثابت کیا ہے کہ عالمی طاقتیں اور اُن کے اتحادی نسل پرستانہ سوچ رکھتے ہیں اور یہ اسلام کیخلاف واضح بغض کے علاوہ کچھ نہیں۔

بیلجیم سے اُردو نیٹ کے ایک قاری وقار علی کا کہنا تھا کہ لندن اور پیرس میں اگر فائرنگ یا قتل کے واقعے میں کوئی مسلمان ملوث ہو تو اسکی عالمی سطح پر مذمّت ہوتی ہے جبکہ اگر ایران یا سعودی عرب میں کوئی مظاہرہ منتشر کرنے کیلئے آنسو گیس استعمال کی جائے تو دنیا بھر کے ممالک اور ذرائع ابلاغ طوفان کھڑا کردیتے ہیں کہ مظاہرہ کرنا ہر شہری کا بنایادی حق ہے لیکن اسرائیلی فوج ہر روز فلسطینی بچّوں اور نوجوانوں کو تاک تاک کر گولیاں مارتی ہے، خواتین کو گرفتار کرتی ہے، راتوں کو فلسطینیوں کے گھروں پر اسرائیلی فوج غیرقانونی چھاپے مارتی ہے جبکہ غیرقانونی یہودی آبادکاروں کے پاس ہتھیار ہیں اور وہ بھی وہی کرتے ہیں جو اسرائیلی فورسِز کرتی ہیں، لیکن نام نہاد عالمی برادری اور بین الاقوامی امن کے ٹھیکیدار اور جمہوریت و انسانی حقوق کے علمبردار ممالک خاموش رہتے ہیں۔

پاکستان کے شہر لاہور سے اُردونیٹ کی قاری سیما رباب کا کہنا ہے کہ امریکہ، فرانس یا برطانیہ میں جب کوئی بیگناہ شہریوں پر فائرنگ کرتا ہے تو اگر وہ مسلمان ہے تو اُسے دہشتگرد قراردیا جاتا ہے اور اگر مسلمان نہ ہو تو اُسے نفسیاتی مریض قرار دے کر ممالک اور مغربی ذرائع ابلاغ واقعے کا رُخ موڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ بیگناہ اور پُرامن فلسطینیوں کو اسرائیلی فوج نے جس طرح گولیاں مار کر ہلاک اور زخمی کیا ہے اُس نے جلیانوالہ باغ کی یاد تازہ کردی ہے جب برطانوی قابض فوج نے پُرامن اور غیرمسلح لوگوں کو فائرنگ کرکے ہلاک اور زخمی کیا تھا۔ سیما رباب نے کہا کہ اسرائیل بھی 1948ء میں برطانیہ ہی کا لگایا گیا نفرت کا پودا ہے اور برطانوی سامراج ہی کے نقشِ قدم پر چل رہا ہے جس کی جتنی مذمّت کی جائے وہ کم ہے۔