اربوں ڈالر بھارت منتقل کرنے کے الزام پر نواز شریف کیخلاف تحقیقات شروع

(اسلام آباد۔اُردونیٹ پوڈکاسٹ 23 شعبان 1439ھ)  پاکستان کے قومی محکمہٴ احتساب (نیب) نے سابق وزیراعظم نواز شریف اور دیگر افراد کیخلاف مبینہ طور پر 4 ارب 90 کروڑ ڈالر کی رقم بھارت بھیجنے کے الزام پر تحقیقات شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔

قومی محکمہٴ احتساب کے سربراہ جسٹس ( ر) جاوید اقبال نے ذرائع ابلاغ میں آنے والی ان اطلاعات کے بعد کہ غیرقانونی طریقے سے اربوں ڈالر بھارت بھیجے گئے تھے، اِس معاملے کی چھان بین کا حکم دیدیا ہے ۔ مذکورہ محکمے کی طرف سے جاریکردہ ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ اخباری اطلاع کیمطابق 4 ارب 90 کروڑ ڈالر کی خطیر رقم بھارت کے سرکاری خزانے میں بھجوائی گئی، جس سے بھارتی حکومت کے غیر ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا اور اس عمل سے پاکستان کو نقصان ہوا۔

ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کیمطابق یہ بات’’ورلڈ بینک مائیگریشن اینڈ ریمیٹنس بک 2016‘‘ میں موجود ہے۔ دوسری جانب، اخباری اطلاعات کیمطابق ملک کے مرکزی بینک، اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے پاکستان سے چار ارب 90 کروڑ ڈالر بھارت منتقل کرنے کی خبروں کو مسترد کردیا ہے۔

اسٹیٹ بینک نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ مرکزی بینک نے 2016ء میں ہی کہہ دیا تھا کہ اس طرح کی اطلاعات میں کوئی صداقت نہیں ۔

یاد رہے کہ گزشتہ چند ماہ سے نواز شریف اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کو پاناما دستاویزات کے انکشاف کے باعث قومی محکمہٴ احتساب کی تحقیقات کا سامنا کرنا پڑا ہے جبکہ احتساب عدالت میں ان کے خلاف مختلف حوالوں پر سماعت بھی ہورہی ہے۔ 

گزشتہ سال ستمبر میں قومی محکمہٴ احتساب نے سابق وزیراعظم نواز شریف، اُن کے صاحبزادوں حسن اور حسین نواز، صاحبزادی مریم صفدر، داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر اور سمدھی سابق وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف چار حوالے (ریفرنسز) دائر کیے تھے۔ نواز شریف کے دونوں صاحبزادے اور سابق وزیرخزانہ اسحٰق ڈار ملک سے باہر ہیں۔

سابق وزیراعظم اور اُن کا خاندان اُس وقت مالی اسکینڈل کی زد میں آئے جب اپریل 2016 میں پاناما میں قانونی خدمات فراہم کرنے والے ادارے موزیک فانسیکا کی پاکستان سمیت دنیا کی کئی اہم سیاسی شخصیات کی دستاویزات افشاء ہوئیں جن سے پتہ چلا کہ نواز شریف اور اُن کے خاندان کا مبینہ طور پر بیرونِ ملک کاروبار اوربینک کھاتے ہیں۔  

ان انکشافات سے پاکستانی سیاست میں بھی بھونچال آگیا۔ حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے وزیراعظم نواز شریف کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا اور عمران خان کی قیادت میں پاکستان تحریک انصاف نے احتجاجی مظاہرے کیے۔ بعد ازاں، عدالتِ عظمیٰ سے رجوع کیا گیا جس نے سماعت کے بعد گزشتہ سال 20 اپریل کو وزیراعظم نواز شریف کے خلاف پاناما کیس کی مزید تحقیقات کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے اعلیٰ افسر کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی۔

بالآخر گزشتہ سال 28 جولائی کو عدالتِ عظمیٰ نے شریف خاندان کے خلاف پاناما انکشافات کے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا جس کے بعد وہ وزارت عظمیٰ کے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔

رواں سال فروری میں عدالتِ عظمیٰ ہی نے انتخابی اصلاحات قانون 2017ء کے خلاف دائر درخواستوں کا فیصلہ سناتے ہوئے سابق وزیراعظم نواز شریف کو مسلم لیگ (ن) کی صدارت کے لیے بھی نااہل قرار دے دیا۔

نواز شریف اور اُن کا خاندان الزامات کو مسترد کرتے رہے ہیں لیکن اُن کے دونوں بیٹے وطن واپس نہیں آئے جبکہ سابق وزیرخزانہ اسحٰق ڈار اچانک بیماری کے عذر پر لندن چلے گئے اور تاحال واپس نہیں آئے ہیں۔ عدلیہ اور قانون کا احترام کرنے کا دعویٰ کرنے والی مسلم لیگ ن اور اُس کے قائد نے عدالت کیجانب سے اپنے خلاف فیصلہ دینے پر عدالتِ عظمیٰ اور عدالتِ عظمیٰ کے اعلیٰ منصفین کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا ہے