ڈنمارک کی اسلام مخالف خاتون وزیر کا نیا اشتعال، روزہ دار مسلمانوں کو خطرہ قراردے دیا

(کوپن ہیگن۔اُردونیٹ پوڈکاسٹ 08 رمضان 1439ھ) ڈنمارک کی خاتون وزیر وزیر برائے امیگریشن اِنگر اسٹوجبرگ نے جو اسلام مخاف اور مہاجرین کیخلاف نسلی ومذہبی امتیاز کی حامل نفرت انگیز پالیسیاں اختیار کرنے کی شہرت رکھتی ہیں، ایک اور اسلام مخالف اشتعال انگیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے روزہ دار مسلمانوں کو ڈنمارک کے معاشرے کی ’’سلامتی خطرہ‘‘ قراردیدیا ہے۔

فیس بک پر اپنے بیان میں اُنہوں نے کہا ہے کہ ’’ڈنمارک میں موجود مسلمان رمضان کے مہینے میں 18 گھنٹے تک کچھ کھانے پینے سے گریز کرتے ہیں لیکن اس دوران وہ مختلف خطرناک مشینیں بھی چلاتے ہیں جیسا کہ مسلمان بس ڈرائیور جو بغیر کچھ کھائے پیئے بسیں چلاتے ہیں اور ان کا یہ عمل ہمارے تحفظ کے لیے خطرات پیدا کر سکتا ہے‘‘۔

خاتون وزیر اسٹوجبرگ نے اپنے بیان میں زور دیا ہے کہ ’’ڈنمارک میں موجود تمام مسلمان رمضان کے دوران اپنے کاموں سے چھٹیاں لیں تاکہ ہمارا معاشرہ منفی اثرات سے محفوظ رہ سکے‘‘۔

یہ خاتون وزیر مسلمان مہاجرین کیخلاف تعصب پرستانہ اور امتیازی سلوک پر مبنی غیرمنصفانہ قوانین متعارف کروانے میں شہرت رکھتی ہیں اور بعض تجزیہ کار انہیں نازیوں جیسے خیالات اور رویے کی حامل قرار دیتے ہیں۔

ڈنمارک کی وزیر اسٹوجبرگ نے نہ صرف کام کے دوران روزہ رکھنے والے مسلمانوں کو معاشرے کے لیے ایک ’’سلامتی خطرہ‘‘  قرار دیا بلکہ اُنہوں نے بس ڈرائیور اور طبی شعبے سے وابستہ افراد کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ بیان میں اُنہوں نے یہاں تک کہا کہ کام کے دن روزہ رکھنا جدید معاشرے کےلئے ایک چیلنج ہے اور ڈرائیور و اسپتال میں کام کرنے والے روزے دار معاشرے کے لیے خطرے کا باعث بن سکتے ہیں۔

خاتون وزیر نے اپنے اشتعال انگیز اور مذہب مخالف بیان میں مزید کہا کہ ’’میں ڈنمارک میں موجود تمام مسلمان باشندوں سے کہتی ہوں کہ وہ رمضان کے دوران اپنے کاموں سے چھٹیاں لیں تاکہ ہمارا معاشرہ منفی اثرات سے محفوظ رہ سکے۔

لیکن اُنہوں نے اپنے بیان میں یہودیوں، عیسائیوں اور بُدھ مت سمیت دیگر مذاہب اور معاشروں میں روزہ رکھنے کی روایات کے بارے میں کچھ نہیں کہا جس سے پتہ چلتا ہے کہ اُن کا ہدف صرف اسلام اور مسلمان ہیں۔

دوسری جانب، ڈنمارک کی حکومت نے اسٹوجبرگ کے بیان سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ خاتون وزیر کا بیان اُن کی ذاتی سوچ ہے اور اس کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن حکومت نے اپنی وزیر کے بیان کی مذمّت نہیں کی۔

خاتون وزیر کے اسلام مخالف نفرت انگیز بیان کی ڈنمارک کے مسلمانوں سمیت دنیا بھر میں مذمّت کی جارہی ہے۔ڈنمارک کی ٹرانسپورٹ یونین نے خاتون وزیر اسٹوجبرگ کے بیان پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’وہ ایسا مسئلہ پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں جو ابھی تک موجود ہی نہیں ہے‘‘۔

ڈنمارک میں مسلمانوں کی ایک تنظیم نے سماجی ذرائع ابلاغ پر اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’’مس اسٹوجبرگ کی توجہ کا شکریہ لیکن مسلمان بالغ افراد اپنا اور معاشرے کے دیگر افراد کا خیال رکھنے کی بہترین اہلیت رکھتے ہیں چاہے وہ روزے سے ہی کیوں نہ ہوں‘‘۔

ڈنمارک میں اسلام مخالف منفی جذبات اُچھالنے والی خاتون وزیر اسٹوجبرگ یورپ کی اُن متعصب سیاسی شخصیات میں سے ایک سمجھی جاتی ہیں جو مسلمانوں اور اسلام کیخلاف منفی پروپیگنڈے کے ذریعے شہرت کے حصول کیلئے عالمی ذرائع ابلاغ کی توجہ حاصل کرکے خبروں میں رہنے کی جستجو میں مصروف رہتے ہیں۔ فرانس، ہالینڈ، جرمنی، آسٹریلیا، آسٹریا اور دیگر یورپی ملکوں میں آج کل ایسے سیاستدان تیزی سے منظرعام پر آرہے ہیں جنہیں مقامی طور پر کوئی نہیں پوچھتا لیکن اسلام مخالف اشتعال انگیز بیانات کے ذریعے وہ اپنے ملک میں ذرائع ابلاغ کی توجہ حاصل کرکے خبروں میں رہتے ہیں۔