چین اور بھارت سربراہ ملاقات، سرحدی کشیدگی کم اور اعتماد کیلئے اقدامات بڑھانے پر اتفاق

(وُوہان۔اُردونیٹ پوڈکاسٹ 13 شعبان 1439ھ)  چین کے صدر شی جن پنگ اور بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے وسطی چین کے معروف شہر وُوہان میں غیررسمی ملاقات کی ہے جس میں دوطرفہ دلچسپی کے اُمور اور سرحدی کشیدگی کم کرنے کیلئے اقدامات کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔

ایشیاء اور دنیا کے بڑے ملکوں بھارت اور چین، دونوں کی آبادی ایک ایک ارب سے زیادہ ہے تاہم ان کے درمیان سرحدی تنازع کی خلیج گہری ہے جبکہ ایک اور بڑا مسئلہ بھارت میں قائم تبّتی باشندوں کی جلاوطن حکومت ہے جس کے قائد تبّتی بُدھ مت کے مذہبی پیشوا دلائی لاما ہیں۔

بھارتی وزیراعظم سے ملاقات کے دوران چین کے صدر شی جن پنگ نے زور دیا کہ چین اور بھارت کے مستحکم تعلقات کیلئے باہمی اعتماد بنیاد ہے۔ اُنہوں نے دونوں ملکوں کے دوطرفہ تعلقات کی ٹھوس پیشرفت کو سراہتے ہوئے کہا کہ چین اور بھارت دو سب سے بڑے ترقّی پذیر ملکوں اور اُبھرتی ہوئی معیشتوں کے طور پر، جن میں سے دونوں کی آبادی ایک ایک ارب سے زیادہ ہے عالمی معیشت کی نمو کیلئے اہم انجن ہیں۔

چینی خبررساں ادارے شِن ہُوا کیمطابق صدر شی نے کہا کہ ’’چین اور بھارت کو اچھّے ہمسائے اور دوست ہونا چاہیئے، دونوں ملکوں کو عالمی طاقت کے توازن میں ایک دوسرے کو مثبت پہلو سمجھنا چاہیئے اور ترقّی کے خواب کو حقیقت بنانے کیلئے ایک دوسرے کو شراکتدار کے طور پر لینا چاہیئے‘‘۔

دوسری جانب، شی اور مودی کی سربراہ ملاقات کے حوالے سے بھارتی وزارتِ خارجہ کیجانب سے جاریکردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’دونوں رہنماؤں نے بھارت اورچین کے درمیان سرحد پر امن اور سکون کو برقرار رکھنے کی اہمیت کو اجاگر کیا، اُنہوں نے سرحدی معاملات کو بہتر کرنے کے لیے اپنی افواج کو باہمی اعتماد اور رابطوں کو بڑھانے کی جانب تزویراتی رہنمائی کی ہے‘‘۔

چین کی زیرِ قیادت ’’ایک پٹّی ایک شاہراہ‘‘ منصوبے پر بھارت تحفظات کا اظہار کرتا رہا ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ دونوں رہنماؤں نے اِس موضوع پر کوئی بات چیت کی یا نہیں۔ مذکورہ منصوبے کی بنیاد عالمی بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے ذریعے ملکوں کو آپس میں ملانا اور باہمی ترقّی و خوشحالی ہے۔ بھارتی وزارتِ خارجہ کیجانب سے جاریکردہ بیان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ آیا شی اور مودی ملاقات میں اِس حوالے سے تبادلہٴ خیال ہوا ہے یا نہیں۔

تجزیہ کاروں نے نشاندہی کی ہے کہ بھارت اور چین، دونوں جانب سے دوطرفہ رابطوں کو بڑھانے اور باہمی تعاون کی بات تو کی گئی ہے لیکن چین اور بھارت دونوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ وہ سرحدی تنازع اور کشیدگی کو دُور کرنے کیلئے کیا اقدامات اُٹھائیں گے۔

یاد رہے کہ بھارت اور چین کے درمیان 1962ء میں ارونا چل پردیش علاقے پر جنگ ہوئی تھی جبکہ چینی فوجیوں نے عارضی طور پر ہمالیہ کے سرحدی علاقے پر قبضہ بھی کرلیا تھا۔

بھارت، شمال مغربی علاقے میںاروناچل پردیش کو اپنی ایک ریاست تصور کرتا ہے جبکہ چین اس خطے کے 90 ہزار مربع کلومیٹر علاقے کو اپنا حصہ قرار دیتا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان یہ تنازع مسلسل حل طلب ہے۔ بھارتی وزیراعظم مودی نے رواں سال مذکورہ ریاست کا دورہ کیا تھا جس پر چین نے سخت ردعمل کرتے ہوئے احتجاج اور خبردار کیا تھا۔

قبل ازیں، گزشتہ سال جُون میں بھارت اور چین کے فوجیوں کا متنازع علاقہ ڈوکلام میں آمنا سامنا ہوا تھا جس پر چین اور بھارت کے اتحادی بھوٹان دونوں کا ملکیتی دعویٰ ہے۔ چین کی فوج نے علاقے میں ایک سڑک کی تعمیر شروع کی تھی جسے روکنے کیلئے بھارت نے اپنے فوجی بھیجے تھے تاہم بعد ازاں اگست میں دونوں ملکون نے علاقے سے اپنی اپنی فوج کو واپس بلالیا اور تنازع مزید بڑھنے سے پہلے رُک گیا۔

چین کے صدر شی جن پنگ اور بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کی حالیہ ملاقات میں مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے بھی کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔ بیجنگ ’’ایک پٹّی ایک شاہراہ‘‘ منصوبے میں نئی دہلی کو شرکت کی دعوت دے چکا ہے جبکہ پاکستان کو بھی بظاہر اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ لیکن مقبوضہ کشمیر اور چین و بھارت کے مابین متنازع علاقوں پر کسی جامع تصفیے سے پہلے خطّے میں باہمی عدم اعتماد کی خلیج کم ہوتی نظر نہیں آرہی۔ تجزیہ کاروں کیمطابق بھارت کو اپنا غاصبانہ رویہ تبدیل کرکے کشمیریوں کو حقِ خود ارادی دینے اور چین سے سرحدی معاملات تیزی کیساتھ حل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ معاملات حل کیے بغیر خطّے میں امن واستحکام اور ترقّی کا خواب پُورا نہیں ہوسکے گا۔