مقبوضہ جمّوں و کشمیر اور افسردہ عید! تحریر: محمد زبیر

مقبوضہ جمّوں و کشمیر اور افسردہ عید!
تحریر: محمد زبیر (ٹوکیو)

آج مؤرخہ 11 اگست کو جاپان سمیت کئی ممالک میں عیدالاضحٰی ہے۔ گزشتہ شب ہی سے درجنوں احباب اور رشتے داروں کیجانب سے عید کی مبارکباد کے پیغامات آرہے ہیں۔ پہلی بار ایسا ہورہا ہے کہ کسی بھی مبارکباد کا جواب دینے کا جی نہیں چاہ رہا۔ دل چاہے بھی کیسے؟ مقبوضہ جمّوں وکشمیر کو غاصب بھارت نے ایک غیر منطقی ، غیر فطری ، غیر قانونی اور ظالمانہ طریقے سے اپنے ہی آئین کی شِق نمبر 370 اور 35 اے یکطرفہ طور پر ختم کرکے مکمل طور پر قبضہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ بھارتی آئین میں مقبوضہ جمّوں وکشمیر کو دی گئی خصوصی حیثیت کو ختم کرکے بھارتی حکومت نے کھلے عام اقوامِ متحدہ جیسے عالمی اداروں اور ان میں منظور شُدہ قراردادوں کا بھی مذاق اُڑایا ہے۔ نریندر موی کی قیادت میں انتہاء اور تشدّد پسند بھارتی دہشتگرد تنظیم آر ایس ایس کے مذموم ایجنڈے کیمطابق مقبوضہ جمّوں وکشمیر اور لداخ کو بھارتی علاقہ قراردینے کے ایسا اشتعال انگیز غیرقانونی اقدام نے نہ صرف خطّے بلکہ عالمی امن کو غیرمعمولی خطرات سے دوچار کردیا ہے۔

ایسی صورتحال میں کہ جب بھارت کی انتہاء پسند حکومت نے پورے مقبوضہ جمّوں وکشمیر کو ایک جیل بناکر ڈیڑھ کروڑ سے زائد کشمیری مسلمانوں کو آٹھ لاکھ سے زیادہ قابض بھارتی فوج کے حصار میں قیدی بناکر رکھ دیا ہے، بھلا عید کیسے منائی جاسکتی ہے؟ کشمیری مسلمانوں کو اپنی مساجد میں عبادت کرنے سے روک دیا گیا ہے، مکمل کرفیو کے باعث وہ جمعے جیسے اہم دن میں بھی نمازِ جمعہ کی ادائیگی اپنی مرکزی مساجد میں ادا کرنے سے قاصر رہے۔ اب وادیٴ کشمیر میں بھی کل مؤرخہ 12 اگست کو عید الاضحیٰ ہے۔ بھارتی حکومت کے کرفیو کی وجہ سے پوری وادی میں روزمرہ اشیاء کی قلّت کی اطلاعات آرہی ہیں، مواصلاتی اور نشریاتی نظام پر قدغن لگاکر مودی حکومت نے کوشش کی ہے کہ کشمیریوں کی آواز اور موجودہ حالتِ زار کی خبریں علاقے سے باہر کی دنیا کو نہ پہنچ سکیں۔ لیکن وہ اپنے اِن مذموم عزائم میں کامیاب نہیں ہوسکے گی۔  مودی حکومت نے تاریخ کی بدترین غلطی کرتے ہوئے دنیا پر آشکار کردیا ہے کہ اُس کا کشمیریوں سے کوئی واسطہ نہیں بلکہ وہ تو صرف جمّوں وکشمیر کی سرزمین پر قبضہ چاہتا ہے۔

بھارتی حکومت کی طرف سے 5 اگست 2019 کو آئین میں مقبوضہ جمّوں وکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے اعلان کے بعد حکومتِ پاکستان نے جس طرح اِس معاملے کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اُٹھایا ہے وہ بڑی حد تک قابلِ اطمینان ہے تاہم اب بھی نہ صرف بہت زیادہ بلکہ انتہائی مربوط کاوشوں کی ضرورت ہے۔ سمندر پار پاکستانی اور کشمیری، حکومتِ پاکستان کے جوابی اقدامات اور سفارتکاری کیجانب دیکھ رہے ہیں۔ بھارت کے یکطرفہ اور اشتعال انگیز اقدامات کے بعد وزیرِ اعظم عمران خان کی قیادت میں پاکستان نے جس طرح مسئلہ کشمیر کو اُجاگر کیا ہے اس کا تسلسل بھرپور انداز میں جاری رکھنا ناگزیر ہے۔ وزیرِ اعظم عمران خان کی پارلیمان میں تقریر، ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان اور سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سمیت عالمی رہنماؤں سے فوری رابطے، وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کے یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موغیرینی سے فوری بات چیت اور چین کے وزیرِ خارجہ وانگ یی سے ملاقات کیلئے چین کا دورہ قابلِ ستائش ہے۔ بین الاقوامی سفارتکاری کے محاذ پر اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی سفیر محترمہ ملیحہ لودھی کی تیز تر سرگرمیاں اور واشنگٹن  میں پاکستان کے سفیر اسد مجید خان کا امریکہ کے نمایاں نشریاتی ادارے بلومبرگ کو دیا گیا تازہ ترین انٹرویو جس میں اُنہوں نے بھارت کے حالیہ غیرقانونی اور اشتعال انگیز اقدامات پر پاکستان کا مؤقف جامع اور بھرپور انداز میں پیش کیا، وہ نہ صرف قابلِ تعریف ہے بلکہ اِس بات کا واضح اشارہ ہے کہ اب پاکستان عملی طور پر فعال سفارتکاری کیجانب گامزن ہے۔ لیکن نہ صرف واشنگٹن بلکہ لندن، برسلز، پیرس، ماسکو، برلن، ریاض، ٹوکیو، سیئول اور دنیا کے دیگر دارالحکومتوں میں بھی اِسی طرح کی متحرک سفارتکاری کی اشد ضرورت ہے۔

سمندر پار پاکستانی بیرونِ ملک پاکستان کی سفارتی کوششوں اور اہداف کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اُن کی کوششوں اور رابطوں کو پاکستان کی قومی پالیسی سے ہم آہنگ اور مربوط بنانے کیلئے پہلے سے کہیں زیادہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ سمندر پار پاکستانیوں کو بیرونِ ملک پاکستان کا سفیر کہنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اُنہیں فعال بنانے کیلئے حکومتِ پاکستان، پاکستانی سفارتخانوں اور پاکستانی سفارتکاراوں کے اُن سے حقیقی، عملی اور بلاتفریق قریبی رابطے ناگزیر ہیں۔ تاریخ کے اِس نازک ترین دور اور مقبوضہ و آزاد کشمیر سمیت وطن کی سرحدوں پر منڈلاتے خطرات سے نبٹنے کیلئے ضروری ہے کہ حزبِ اختلاف کی تمام جماعتوں سمیت ہر پاکستانی اپنی بھرپور حمایت فراہم کرکے حکومتِ پاکستان اور افواجِ پاکستان کے ہاتھوں کو مزید مضبوط بنائیں۔ نریندر مودی کے غاصبانہ اقدامات کے جواب میں حکومتِ پاکستان نے بھارتی سفیر کو واپس دہلی بھیجنے، بھارت سے تجارتی اور ثقافتی تعلقات ختم کرنے، سمجھوتہ ایکسپریس اور تھر ایکسپریس کو بند کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے اُس کی سمندر پار پاکستانی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ حکومت کو مزید ایسے اقدامات کرنے چاہیئں تاکہ بھارت اور دنیا بھر پر واضح ہوجائے کہ ہم اپنی شہ رگ پر کسی بھی طرح کے حملے کو برداشت نہیں کریں گے۔

 سمندر پار پاکستانی حکومتِ پاکستان کے شانہ بشانہ ہیں اور مجھے یقین ہے کہ وہ ہمیشہ کی طرح کسی بھی صورتحال میں ملک و قوم کو مایوس نہیں کریں گے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم بھارت اور دنیا کو بھی دوٹوک اور بھرپور انداز میں یہ باور کروادیں کہ پُورا کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور اِس کے تحفظ کیلئے حکومتِ پاکستان اور افواجِ پاکستان سمیت ہر پاکستانی کا مؤقف اور عزم ایک ہے۔

آئیے آج عید اِس دعا اور عزم کیساتھ مناتے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کشمیر اور پاکستان کی حفاظت فرمائے اور یہ کہ مقبوضہ جمّوں و کشمیر کی آزادی، کشمیریوں کی غیرمشروط حمایت اور پاکستان کی سلامتی کیلئے کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔