بھارت میں فصل کاٹنے سے انکار پر دلت ہندو کو پیشاب پینے پر مجبور کردیا گیا

(نئی دہلی۔اُردونیٹ پوڈکاسٹ 16 شعبان 1439ھ)  بھارت میں جسے آج کل دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہا جاتا ہے وہاں صدیوں پُرانی اُونچی نیچی ذات کے مسائل اور انسانی حقوق کی بدترین پامالی کا سلسلہ سنگین تر ہوتا جارہا ہے۔ بھارتی ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کیمطابق اُترپردیش کے علاقے بداؤن میں ایک ہندو دلت کو مبینہ طور پر فصل کاٹنے سے انکار پر تشدد کا نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ  پیشاب پینے پر مجبور کیا گیا۔

یاد رہے کہ بھارت کے ہندوؤں میں اُونچی اور نچلی ذات کا صدیوں پرانا تعصب اور امتیازی سلوک ملک بھر میں پایا جاتا ہے۔ دلتوں کو نچلی ذات کا ہندو سمجھا جاتا ہے جنہیں برہمنوں جیسی اُونچی ذات کہلانے والے ہندوؤں کے ساتھ کھانے پینے، یہانتک کہ اُن کے برتنوں میں کھانے پینے تک کی اجازت نہیں ہے اور نہ ہی کسی دلت کی اُونچی ذات کے ہندو سے شادی ہوسکتی ہے اور یہ امتیازی سلوک تعلیم سمیت زندگی کے ہر شعبے میں پایا جاتا ہے۔

اطلاعات کیمطابق گزشتہ ماہ کی 23 تاریخ کو بداؤن علاقے کے اعظم پُورا بساؤریا گاؤں میں ایک ہندو دلت نے مبینہ اُونچی ذات کے ایک ہندو کی فصل کاٹنے سے انکار کیا تو اُسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور پیشاب پینے پر مجبور کیا گیا۔ 50 سالہ دلت شخص نے پولیس سے اس کی شکایت کی لیکن ابتداء میں اُس کی شکایت تک درج کرنے سے انکار کردیا گیا۔ بعد ازاں واقعے کی اطلاعات سماجی ذرائع ابلاغ پر آنے اور دلت نسل کے لوگوں سمیت دیگر کیجانب غم وغصّے کے اظہار کے بعد مذکورہ علاقے کے اعلیٰ پولیس افسر نے رپورٹ درج نہ کرنے والے پولیس انسپکٹر کو معطل کردیا۔ یاد رہے کہ بھارت میں عام طور پر اعلیٰ پولیس افسران بھی مبینہ اُونچی ذات کے ہندو یا سکھ وغیرہ ہوتے ہیں۔

ذرائع ابلاغ نے اعلیٰ پولیس افسر کے حوالے سے بتایا ہے کہ پولیس نے ملزم کیخلاف ایف آئی آر یعنی ابتدائی رپورٹ درج کرلی ہے۔ یاد رہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد نہ صرف دلتوں اور عیسائی کیخلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا بلکہ بھارتی حکمراں جماعت اور اس کی ذیلی تنطیموں کے انتہاء پسندوں نے گائے کے ذبیحہ کے الزامات پر مسلمانوں اور مسلمانوں کے کاروبار پر سینکڑوں حملے کیے۔ اس قسم کا تشدّد اور انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں مسلسل جاری ہیں۔